16 جنوری 2018ء کو راولپنڈی شہر کی ایک عظیم سیاسی‘ ادبی‘ سماجی اور انقلابی شخصیت نثار احمد نثار انتقال فرما گئے۔ مرحوم و مغفور کالم نگار‘ ادیب و خطیب تھے۔ آفتاب سیاست و سیادت ‘ بطل روشن ضمیر‘ زلف وطن کے اسیر‘ مرد درویش ‘ سفید پوش‘ پیکر دیانت و فطانت‘ رجل امانت و ذہانت صاحب درد اور نظریہ پاکستان کے سپہ سالار تھے۔ وہ کیا گئے بقول شاعر ’’اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا‘‘ گویا شہر یتیم ہو گیا۔ ان کے فرزند ارجمند ڈاکٹر جمال ناصر راولپنڈی کی نامور سماجی و سیاسی شخصیت ہیں۔ کالم نگار اور خطیب و ادیب ہیں جبکہ مرحوم کے دوسرے نور نظر جناب سہیل ناصر راولپنڈی کے سیشن جج ہیں۔ ہمہ خانہ آفتاب است۔ مرحوم و مغفور کی نماز جنازہ میں رسم قل میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ وفاقی وزراء ‘ صوبائی وزرائ‘ گورنر‘ ججوں‘وکیلوں‘ سیاستدانوں‘ صحافیوں ‘ ادیبوں ‘ شاعروں‘ تاجروں اور علماء و شیوخ نے مراسم تجہیز و تکفین میں حاضری دی۔ مرحوم کی کتاب ’’آؤ سچ بولیں‘‘ کا تیسرا ایڈیشن حاضرین میں ’’بطور تحفۂ درویش‘‘ مفت تقسیم کی گئی۔ یہ کتاب مرحوم کے چیدہ و چنیدہ کالموں پر مشتمل ہے۔ کتاب کے صفحہ 325 پر راقم الحروف کی رائے بھی موجود ہے۔ مرحوم و مغفور کو ان کی خدمات کے عوض ہمیشہ یاد رکھا جائے گا لیکن یہ ’’کتاب زندہ‘‘ انہیں ہمیہ زندہ رکھے گی۔ بقول فوق لدھیانوی …؎
مدفون کتنی صدیوں کے اب تک حیات ہیں
انسان مر بھی جائے تو مرتا نہیں ہے فن
17 جنوری 2018ء کو پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس اسلام آباد کی طرف سے دعوت تھی۔ انگریزی زبان کے ممتاز شاعر مظہر نثار کی انگریزی شاعری کی کتاب (The mahqgany junction) کی تقریب رونمائی تھی۔ کتاب پر ممتاز اردو شاعر افتخار عارف‘ ممتاز انگریزی شاعر سابق وفاقی وزیر اعجاز رحیم اور ممتاز انگریزی شاعرہ شبنم ریاض کی آراء درج ہیں۔ تقریب کی صدارت وفاقی وزیر محترمہ سائرہ افضل تارڑ نے کی جبکہ وزیر اطلاعات و نشریات محترمہ مریم اورنگزیب مہمان خصوصی تھیں۔ مقررین میں راقم الحروف کا نام بھی شامل تھا لیکن بوجوہ شامل تقریب نہ ہو سکا۔ کتاب نظر نواز ہوئی۔ شاعر کو انگریزی زبان سے نہ صرف شغف ہے بلکہ شاعری میں معاملات زندگی پر گہری روشنی ڈالی گئی ہے۔ پاکستان میں علاقائی زبانوں کے علاوہ اردو‘ فارسی اور انگریزی زبانوں میں بھی شاعری ہو رہی ہے۔ انگریزی زبان میں عصر جدید میں داؤد کمال‘ توفیق رفعت‘ اعجاز رحیم اور ڈاکٹر اکرام اعظم معروف انگریزی شاعر ہیں۔ راقم الحروم کے بھی انگریزی میں چار شعری مجموعے پاکستان اور امریکہ سے شائع ہو چکے ہیں۔ سید طالب حسین بخاری نے راجہ حسن اختر بحیثیت اقبال شناس کتاب لکھی اور بطور تحفہ مجھے مرحمت فرمائی۔ راجہ حسن اختر دانشور ‘ قانون دان اور سیاستدان کے بطور نامور شخصیت گزرے ہیں۔ ان کے بیٹوں کے نام بھی علامہ اقبال نے رکھے تھے۔ کرنل سلطان ظہور اختر ان کے فرزند ارجمند ممتاز دانشور ‘ ادیب ‘ کالم نگار اور سیاستدان ہیں۔ یہ کتاب اقبال اکادمی پاکستان نے ائع کی ہے۔ کتاب خزینۂ معرفت ہے۔ اقبال شناسی اور اقبال شناس پر لاجواب تحقیق ہے۔
24 فروری 2017ء کو پاکستان ٹی وی ورلڈ کی ٹیم میری رہائش گاہ پر آئی۔ پی ٹی وی ورلڈ انگریزی زبان میں نشریات کا چینل ہے۔ حامد شیخ پروڈیوسر اپنی ٹیم کے ساتھ تشریف لائے۔ ڈاکٹر عمر خالد نے انٹرویو لیا جو تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہا۔ ڈاکٹر عمر خالد نہایت ہی ذہین و فطین نوجوان ہیں جنہیں انگریزی زبان پر خاصا عبور ہے۔ انٹرویو میں سوالات زندگی بھر کی کاوشوں کے بارے میں تھے۔ میری شاعری کالم نگاری علمی و ادبی و سیاسی خدمات کے بارے میں سوالات کئے۔ لب لباب کے بطور زندگی کا فکری و عملی نچوڑ عرض کرتے ہوئے کہاکہ تمام فلاسفہ اور انبیاء کا بنیادی درس انسانیت‘ عدل و انصاف اور امن و امان ہے۔ میرا پیغام صلح و آشتی ہے۔ انٹرویو میں میرے بیٹے بیرسٹر افضل حسین اور میری پوتیوں ماہم اجمل اور اریشا اجمل نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ میری بڑی پوتی ماہم انجم نے انگریزی نظم ’’میرے دادا جان‘‘ (My Grand Father) سنائی جسے نہایت پسند کیا گیا۔ وہ انگریزی زبان میں شاعری بھی کرتی ہے اور اپنے سکول میں انگریزی مباحثوں میں ہمیشہ اول انعام لیتی ہے۔ حالانکہ وہ ابھی 10 سال کی ہے اور گریڈ 5 کی طالبہ ہے۔ انگریزی اور اردو کی بہترین مقرر ہے۔ علم و ادب سے انسان بقائے دوام حاصل کرتا ہے۔ کتاب کی عظمت مسلمہ ہے۔ انسانوں کو ہدایت کے لئے تورات‘ انجیل اور قرآن نازل ہوا۔ ’’ذلک الکتاب لاریب فیہ‘‘ کا اعلان کتاب حق کی حقانیت کی دلیل‘ عظمت و حرمت لفظ کی روشن قندیل ہے۔ الہامی کتابوں کے علاوہ انسانی وجدانی کتب بھی لازوال ہیں۔ ہم آج بھی رومی و سعدی و خسرو کی شاعری سے حنط اٹھاتے ہیں۔
ولیم شیکسپئر ولیم ورڈزورتھ‘ شیلے‘ کیٹس‘ چاؤسر‘ ملٹن‘ براؤننگ‘ ورجل اور گوئٹے کی شاعری کتاب زیست کے روشن ابواب ہیں۔ آج پاکستان میں جو لوگ تخلیق و تحقیق کی پرخار وادی کے مسافر ہیں وہ ہمارا ملی و علمی قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان کا ذکر فرض بھی ہے اور قرض بھی ہے۔ یہ دلجوئی بھی ہے اور اعتراف دانش و بینش بھی ہے۔ پروفیسر محمد یعقوب شائق شاعر بھی ہیں معلم بھی رہے محقق و نقاد بھی ہیں۔ ان کا فکری اور ذہنی رابطہ جماعت اسلامی سے رہا اور مولانا مودودی کے نظریاتی پیروکار ہیں۔ علامہ اقبال کی فکر سے بھی مربوط ہیں۔ آزاد کشمیر میں سال ہا سال درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ نوائے وقت میں کالم بھی لکھتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اپنی دو تصانیف مرحمت فرمائیں‘ ’’بہار ہو کہ خزاں‘‘ ان کے مضامین اور کالموں کا مجموعہ ہے۔ سیاسی ‘ سماجی‘ ادبی‘ دینی اور علمی موضوعات پر خامنہ فرسائی کی ہے۔ علامہ اقبال کا شعر ہے …؎
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لاالہ الا اﷲ
اس کتاب کے مطالعہ سے پروفیسر صاحب کی قابل ستائش علمی و ادبی شخصیت نکھ کر سامنے آتی ہے۔ ان کی دوسری کتاب بعنوان ’’فیض الغنی‘‘ ہے۔ یہ حضرت مولانا محمد عبدالغنی فاضل دیوبند کے سوانحی حالات پر مبنی بصیرت افروز کتاب ہے۔ کتاب کا چوتھا ایڈیشن شائع ہوا ہے۔ قبلہ مولانا محمد عبدالغنی جناب پروفیسر محمد یعقوب شاہق صاحب کے دینی استاد تھے جو صاحب علم و عرفان اور ایک عالم باعمل تھے۔ اس کتاب میں پروفیسر صاحب نے علمائے کشمیر کا تذکرہ کر کے مذہبی طلباء کے لئے قابل قدر علمی و دینی مواد مہیا کردیا ہے۔ پروفیسر صاحب کی تحریر ادبی چاشنی سے مزین ہوتی ہے۔مولانا قاری محمد طیب کی ’’تاریخ دارالعلوم‘‘ دیو بند اور مولانا تقی عثمانی کی تصنیف بعنوان ’’اکابر دیوبند کیا تھے‘‘ اس مکتبہ و فکر کے بارے میں جامع تصانیف ہیں۔ جبکہ پروفیسر محمد یعقوب شاہق نے کشمیری علمائے دیوبند کا اجمالی تذکرہ کیا ہے۔ حسنین نازش نے کمال محبت سے اپنی تازہ تصنیف ’’ دیوار چین کے سائے تلے‘‘ ارسال کی ہے اور اس کی تقریب رونمائی جو راولپنڈی آرٹس کونسل میں ہوئی میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی دعوت دی۔ آپ کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’پہلی اڑان‘‘ 2009ء میں شائع ہوا۔ 2013ء میں آ کا سفر نامہ ’’قادرش ۔ سفر نامہ ترکیہ‘‘ زیور طباعت سے آراستہ و پیراستہ ہوا۔ ’’دیوار چین کے سائے تلے‘‘ ادبی اعتبار سے شیریں بیانی اور نکتہ آفرینی کی داستان لازوال ہے۔ زندہ و پائندہ دلچسپ سفر نامہ ہے۔ ناول کا ناول اور سفرنامہ کا سفر نامہ۔ چین پاکستان دوستی کے تناظر میں ہر پاکستانی پر اس ’’کتاب دوستی‘‘ کا مطالعہ فرض ہے۔ حدیث رسول مقبولؐ ہے ’’علم حاصل کرو چاہے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘ علامہ اقبال نے کہا تھا …؎
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
یہ صرف سی پیک (CPEC) کی بات نہیں۔ معاشی خوشحالی کا قصہ نہیں۔ شکم کا معاملہ نہیں چین پاکستان دوستی دل کا معاملہ ہے۔ اہل دل اور اہل نظر کے لئے اس کتاب سے فیض یابی محبت کی کامیابی اور زیست کی آئینہ تابی ہے۔