درآمدات و برآمدات میں توازن کی ضرورت

Jan 27, 2018

شیخ منظر عالم

گزشتہ دنوں وفاقی سیکرٹری کامرس جناب یونس ڈھاگہ نے کراچی میں کورنگی کے صنعتکاروں سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ملکی برمدآت جون 2016،سے بتدریج بڑھ رہی ہیں ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی برآمد 8%بڑھی ہے ۔انہوں نے یقین دلایا کہ ہم اپنی پوری قوت سے ملک کی برآمدات بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں گے ۔جو ایک حوصلہ افزاء بات ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یو نس ڈھاگہ صاحب کی سابقہ کا میابیوں کو دیکھتے ہوئے انکی بات میں وزن ہے کیونکہ ملک کی معیشت اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی اور نہ ہی مضبوط ہو سکتی ہے جب تک ملک میں پیداواری شعبہ مضبوط نہ کیا جائے اور ملک کی برآمدات نہ بڑھائی جائیں اور درآمدات کو کم کیا جائے ۔

ملک کی برآمدات بڑھانے میں سب سے اہم شعبہ پیداوار کا ہے اور ہمیں اپنے روایتی اور غیر روایتی دونوں شعبوں کو فوکس کرکے اس کی پیداوار بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ اس وقت زیادہ انحصار ٹیکسٹائل کی مصنوعات چمڑے کی مصنوعات پر ہے جبکہ ہم بنیادی طور ایک زرعی ملک ہو تے ہوئے ڈیری فارمنگ پر کوئی توجہ نہیں دے سکے ۔ملک میں دودھ دہی اور مکھن بھی یورپ اور دیگر ممالک سے درآمدکررہے ہیں حالانکہ ہمیں اپنی ڈیری فارمنگ جس پر اب کچھ کام ہو رہا ہے بہت پہلے توجہ دینی چائیے تھی ،اب بھی اس قدر توجہ نہیں دی جا رہی جتنی اس پر دینی چاہیے ۔
ٹیکسٹائل کی مصنوعات پر پاکستان کی برآمدات کا تقریباً60%انحصار تھا جو اب کافی کم ہو چکا ہے کیونکہ اسکی بنیا دی وجہ ہم پہلے اپنا کاٹن برآمدکرتے ہیں پھر یارن درآمدکرتے ہیں اور جواس میں سے بچتا ہے وہ ملکی ضروریات کے لیے رکھتے ہیں جسکی وجہ سے ٹیکسٹائل ملز والے مصنوعی بحران پیدا کرکے قیمتوں میں من مانا اضافہ کرتے ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ دسمبر2017،اور جنوری 2018،کے دوران دھاگے کی قیمتیں تقریباً 25%بڑھ چکی ہیں جسکی وجہ سے تیار شدہ مصنوعات کی پیداواری لاگت اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب ہم بین الاقوامی سطح پر اپنی لاگت کی وجہ سے مقابلہ نہیں کرسکتے اور اب تباہی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے وفاقی وزارت کو فوراًاس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے اس پر کاروائی کرنی چاہیے ورنہ خدشہ ہے کہ وفاقی سیکرٹری تجارت کی تمام محنتوں پر پانی پھر جائے گا اس کے لئے ہمیں ملک سے خام مال برآمد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اور ہر ترقی پزیر ملک کی طرح تیا رشدہ مصنوعات پر توجہ دینی چاہیے جیسا کہ بنگلہ دیش ،تھائی لینڈ ،ملائیشیا ،سری لنکا اور دیگر ممالک کر رہے ہیں ۔
وفاقی سیکرٹری نے اپنے خطاب میں تجارتی پالیسی کا بھی ذکر کیا تھا ۔مگر وہ تو گذشتہ 50سالوں سے کبھی سالانہ ،کبھی 3سالہ اور کبھی 5سالہ اعلان ہو تی رہی اور موجود ہ حکومت کے پہلے وزیر تجارت خرم دستگیر جو اب وزیر دفاع بن چکے ہیں انہوں نے بھی 3سالہ تجارتی پالیسی کا اعلان کیا تھا اور میں نے اُ سی وقت تجارتی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہی نوائے وقت کے کالم میں لکھا تھا کہ اب ہمیں خوبصورت الفاظ کے گورکھ دھندوں سے نکل کر حقیقی دنیا میں آجا نا چاہیے ۔
موجودہ وقت ہمارے قریبی ممالک کی نسبت پانی ،بجلی ،اور گیس جو کسی بھی صنعت کوچلانے کے لیے بنیادی خام مال کی حیثیت رکھتا ہے وہ ہمارے ملک میں سب سے زیا دہ ہے ۔اسکے ساتھ اس ملک میں لینڈ مافیا نے جس طرح زمینوں کی قیمتیں آسمانوں پر پہنچا دی ہیں اس سے پاکستان کی نہ صنعت بچ سکی اور نہ ز راعت صنعتی اور زرعی علاقوں کی زمین کی قیمتیں بھی آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں ۔موجودہ حکومت نے 2سال پہلے ایک قانون بنانے کی کوشش کی تھی جس میں اصل قیمت خرید اور ظاہری قیمت خرید بدعنوانی اور کرپشن روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتی تھی اور اُس نے کچھ عرصہ کام کیا بھی لیکن نہ جانے کن نا دیدہ قوتوں کے ہا تھوں مجبور ہو کر حکومت نے تمام فیصلے واپس لے لیے اور آج زمینوں کی قیمت اپریل 2014 کے مقابلے سے بھی زیا دہ ہو چکی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا صرف گزشتہ 2سالوں میں پاکستان کی مجموعی طورپر0 5,00صنعتیں بند ہو کر گوداموںمیںیا پلازوںمیں تبدیل ہو چکی ہیں یا تجارتی مالز میں تبدیل ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے ملک کی برآمدات پر بھی اثر پڑا ہے۔
ہم نے بھی آج سے 50سال پہلے ملک میں گاڑیوں کے اسمبل پلانٹ لگا ئے تھے اور طے کیا تھا کہ دس سال میں ٹیکنالوجی کے ساتھ پیداوار شروع کردیں گے اور اب اگر وفاقی سیکرٹری تجارت اپنی نئی پالیسی سے اس بات کو یقینی بنا ئیں کہ اب اس ملک میں جو گاڑیاںتیارہوں ان کی پیداوار ٹیکنالوجی کے ساتھ ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک سنگ میل ہو گا اس ضمن میں گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے پرانی گاڑیوں کے لیے صر ف اوور سیز پاکستانیوں کے لیے ایک گا ڑی ساتھ لانے کی اجازت کادوبارہ ذکر کیا ہے اب اس کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں ۔

مزیدخبریں