دو روز قبل دہلی کے علاقے ماڈل ٹائون سے الیکشن لڑ رہے BJP کے امیدوار کپل مشرا نے وطن عزیز کے حوالے سے جو یاوہ گوئی کی اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ RSS اور BJP اخلاقی گرائوٹ کی کن پستیوں کو چھو رہے ہیں۔ یاد رہے کہ موصوف نے دہلی کے صوبائی انتخابات کو پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ سے تشبیہ دی ہے، علاوہ ازیں انھوں نے بہت سی ایسی باتیں کی جنہیں احاطہ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔ ہندوستانی حکمرانوں نے 100 برس قبل جلیانوالہ باغ میں سینکڑوں انسانی جانوں کو جس مانند تاراج کیا تھا اور اب اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے شاہین باغ میں بھی وہ سلسلہ اپنے اگلے مرحلے میں داخل ہونے کو ہے۔
اگرچہ انسانی تاریخ میں ایسی متعدد خواتین گذر چکی ہیں جنھوں نے اپنے عزائم کی تکمیل میں تاریخ ساز کا ر نامہ انجام دیا ۔ اب ایسا ہی منظر شاہین باغ دہلی میں درپیش ہے۔گذشتہ 16 دسمبر 2019 ء سے شاہین باغ کی خواتین این آر سی (NRC) سی، اے، اے (CAA) اور این پی آر (NPR) کے خلاف اس خون جما دینے والی سردی میں دھرنے پر بیٹھی ہیں اور تقریباً ڈیڑھ ماہ سے زائدکا گزر گیا لیکن ان خواتین کے عزائم میں کسی طرح کی کمی نہیںآئی ۔ ان کے حوصلے بلندہیں اور وہ RSS کی انتہاپسندانہ پالیسیوں اور اقلیت دشمنی کیخلاف سراپا احتجاج ہیں ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف دن کے ایام میں یہ خواتین دھرنے پر ہیں بلکہ دہلی کی سرد راتوں میں بھی وہ اپنی زندگی کو ہتھیلی پر رکھے تکلیف اُٹھارہی ہیں ۔ اس میں پندرہ دن سے لے کر چھ ماہ کی شیر خوار بچوں کے ساتھ عورتیںبھی موجود ہیں۔ گھریلو خواتین، دفتروں میں سروس ٗ اعلیٰ عہدیداران ٗ کالج ویونیورسیٹیوں کی طالبات بھی شامل ہیں۔ محض انسان دوستی اور اپنے ضمیر کی آواز پر وہ دھرنا دیئے بیٹھی ہیں ۔
اس دھرنے میں صرف مسلم خواتین ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کی خواتین بھی شریک ہیں، جس میں عبادات و ریاضت کا عجیب امتزاج دکھائی پڑتا ہے۔ اس کھلے میدان میں موجود ہزاروں مرد و خواتین اللہ کے دربار میں سر بہ سجود ہیں ، سکھ گرنتھ صاحب کے پاٹھ پڑھ رہے ہیں تو کرسچن اپنی عبادات میں مصروف ہیں ۔ سبھی جانتے ہیں کہ بھارت ایک ارب 35 کروڑ انسانی آبادی پرمشتمل ملک ہے جس میں سینکڑوں ہزاروں نظریات ، رہن سہن کے ہزاروں طریقے ، زندگی گذارنے کے ہزاروں فلسفے، عبادات و ریاضات شامل ہیں۔ کوئی مندر ٗ مسجد ٗ گرودوارہ ٗ چرچ جاتا ہے ، کوئی پانچ گز کی دھوتی تو کوئی پانچ گز کی پگڑی باندھتا ہے۔ کسی کو خشکی پسند تو کسی کو تری ، کوئی چاول کا رسیاکوئی روٹی کا دلدادہ غرضیکہ مختلف رنگارنگ تہذیب وتمدن کے رہنے والے اس خطے میں رہائش پذیر ہیں ۔اسی وجہ سے دنیا بھر میں بھارت کے متعلق چھوٹے سچے سیکولر ازم اور جمہوری تماشے کا بھرم بھی قائم تھا۔
مگر شہریت میں متنازعہ ترمیم کے کالے قانون کیخلاف خواتین کے یہ جراتمندانہ اقدام پورے جنوبی اور شمالی ہند میں پھیل گئے ہیں۔ دہلی کے شاہین باغ سے لیکر کولکاتا تک پوری ریاستوں میں بلا تفریق خواتین سڑکوں پر آچکی ہیں۔جنوبی ہند میں تامل ناڈو، مہاراسٹر ٗ کرنا ٹک ٗ آندھراپردیش ٗ تلنگانہ جیسی ریاستوں میں خواتین صدائے احتجاج بلند کررہی ہیں اور دھرنے دے رہی ہیں۔آج پورے بھارت میں اس کالے قانون کیخلاف خواتین اُٹھ کھڑی ہیں جو بھارت کی نصف آبادی کہلاتی ہیں۔ انہوں نے کمان اپنے ہاتھوں میں لی لے ہے، قابل غور بات یہ ہے کہ اس ٹھٹھرتی ہوئی سردی کی راتوں میں آخر کس نے اس صنف نازک کو گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کیا ۔ بھار ت میں مسلم خواتین کے ساتھ دہلی سرکار نے جو امتیازی سلوک دہائیوں سے روا رکھا ، اب میں شدت آتی جا رہی ہے ۔ شہریت ترمیمی بل کے نفاذ کے ساتھ ہی جامعہ ملیہ کے طلباء و طالبات نے پر امن احتجاج کیا تھالیکن دہلی کی مشنری نے اسے پرتشدد بنادیا جس کی آواز پورے بھارت میں سنی گئی اور ہندوستان کی اکثر یونیورسیٹیوں کے طلبہ بھی اس استبدایت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔اس احتجاج میں مقبوضہ کشمیر کی مانند کتنی ہی زندگیاں قربان ہوگئیں ، کتنی ہی خواتین کا سہاگ اُجڑ گیا۔ ماؤں سے ان کی اولاد چھین لی گئی، یہ سب تاریخ میں مودی سرکار کے سیاہ کارناموں کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اگرچہ ابتدا میں دہلی کے حکمرانوں نے پہلو بچانے کی کوشش کہ پر تشدر احتجاج کے جواب میں تشدد اختیار کرنا پڑا۔لیکن خواتین تقریباً ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ سے عدم تشددکی راہ اپنا کر پر امن احتجاج کر رہی ہیں لیکن صد افسوس کہ اب تک بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ایسے میں بھارت کے اعتدال پسند تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ کسی بھی جمہوری ملک کیلئے یہ ایک خطرناک رجحان ہے کیونکہ محض 33 فیصد ووٹوں سے جولوگ اقتدار میں آئے ہیں وہ 67 فیصد آبادی کی آواز کو یقینا دبا نہیں سکتے ۔
دوسری طرف یہ بات بھی خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ کیرالہ اور مغربی بنگال کے بعد بھارتی پنجاب کی صوبائی اسمبلی نے کثرت رائے سے قرار داد منطور کر کے اس قانون کو اپنے یہاں لاگو کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھی آنے والے چند دنوں میں یہی کچھ ہونے کا قومی امکان ہے۔ اس سارے معاملے کا منطقی انجام کیا ہو گا، اس کا تیقن کے ساتھ تعین کرنا تو شاید ممکن نہیں البتہ یہ امر لگ بھگ طے ہے کہ بھارت واپسی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہو چکا ہے ۔ دہلی کے حکمران گروپ کو بھارت کے سنجیدہ حلقے یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ
تازہ ہوا کے شوق میں اے پاسبانِ شہر
اتنے نہ در بنایئے کہ دیوار گر پڑے
جلیانوالہ سے شا ہین باغ تک… !!
Jan 27, 2020