آج سے چالیس برس قبل یہ لطیفہ عام تھا، کہ لاہوریئے نے اپنے دیہاتی دوست کی ایک تنور والے کے ڈیرے پر میزبانی کرتے سمے پوچھ لیا، کہ یار! ساری عمر روٹیاں توڑتے گزر گئی، ابھی تک یہ پتہ نہیں چلا، کہ گندم کا درخت کتنا بڑا ہوتا ہے۔ مہمان کی رگ ظرافت بھڑکی اوربولا، آپ کی بیٹھک (تب ڈرائنگ روم یالاؤئج نہیں ہوتے تھے )میں رکھا فرنیچر گندم کے درخت کی لکڑی سے بنا ہے۔ کچھ عرصہ ہم اس لطیفہ ہی سمجھتے رہے، کہ ایک دن گاڑی میں ایک شہری دوست کو بٹھائے رائے ونڈ جا رہے تھے کہ راستے میں گائیوں اور بھینسوں پر مشتمل ریوڑآ گیا۔ دوست نے ہمیں یہ پوچھ کر قریباً مبہوت کر دیا، کہ یہ جانور کون کون سے ہیں۔ میں نے جواب دیا، گائیں اور بھینسیں، پوچھنے لگے گائیں کونسی ہیں اور بھینس کون سی!
جہالت کی انتہا ہے کہ میں نے ایک دن ایک نوجوان سے پوچھا۔ اچھرہ مشرق کی طرف واقع ہے، یا جنوب کی طرف، تو ہونقوں کی طرح میرا منہ تکنے لگے۔ مجھے یہ کیفیت دیکھ کر شبہ گزرا، کہ شائد انہیں یہ بھی معلوم نہیں، کہ سورج مشرق میں غروب ہوتا ہے، یا …خیرا ان جہالتوں کو تو جانے دیجئے، اب کسی اچھے بھلے پڑھے لکھے سے پوچھ دیکھئے، گرمیاں،۔ ہاڑ ساون آتی ہیں یا پوہ ماگھ ان دنوں جب کہ موضوعات کی بھرمار ہے۔ اس کالم کے گھیٹنے کا مطلب محض یہ بتانا ہی نہیں، کہ جہالت بڑھ رہی ہے۔ بلکہ یہ یقین دلانا بھی مقصود ہے، کہ ہمارا ماضی سے راشتہ کٹ چکا ہے، کھانے پینے میں، لباس اور پہناوے میں شادی و غمی اور کفن دفن کی رسموں میں بہت فرق آ گیا ہے۔
اب یہی دیکھئے گا کہ گندم کی فصل (بارش کی وجہ سے) کھیتوں میں پڑی پانی میں تیر رہی ہے۔ پکی دھان کے کھیت میں ٹخنول پانی کھڑا ہے۔ اگر یہی صورت رہی، تو دھان کیسے نکالی جا سکے گی۔ پرالی کہاں رکھی جائے گی، زمین کب و تر آئے، گندم کی فصل کیسے بوئی جا سکے گی۔ اسی طرح کا موسم رہا، تو گندم کھیتوں میں گل سٹر جائے گی۔ کسان کا جو نقصان ہو گا سو ہو گا۔ ملکی ضرورت کے لئے گندم پیدا نہ ہوئی۔ تو درآمد کرنا پڑے گی۔ قیمتی زرمبادلہ خرچ ہو گا۔ آٹے کا بحران حکومت کو لے ڈوبے گا۔ ایک طرف یہ حالت ہے، دوسری طرف ہماری اینکر پرسن ٹی وی پر قوم کو خوش خبری دے رہی ہے۔ پنجاب، سرحد اور بلوچستان میں بادل خوب برسا، موسم خوشگوار ہو گیا، شہری موسم انجوائے کرنے کے لئے گھروں سے نکل پڑے، پارکوں میں میلے سج گئے، دوسری طرف کسان اور باخبر لوگ، غم میں ڈوبے ہوئے ہیں، کہ ایک زرعی ملک کی پکی فصل گڑے یعنی ژالہ باری اور بارش سے تباہ ہو رہی ہے۔ دوسری طرف زندہ دلان لاہور اور پشاور موسم انجوائے کرنے گھروں سے نکل آئے، پارک سج گئے رونقیں لگ گئیں۔ ‘‘ایسی صورت میں سچ پوچھئے، تو یوں محسوس ہوتا ہے۔ ہم دو قومیں ہیں۔ یاد ہو گا۔اس سال گندم کی پکی فصل بارشوں کی کثرت سے کافی مقدار میں ضائع ہو گئی۔ اگر موسم ’’خوشگوار‘‘ نہ ہوا ہوتا تو آج، نان اور روٹی کی تلاش میں کیوں مارے مارے پھرتے، جیسا کہ پہلے عرض کر چکے ہیں۔ پاکستان زرعی ملک ہے۔ موسم سازگار ہیں، فصلیں کیڑوں مکوڑوں سے بچی رہیں، تو یہ مقام ہے انجوائے کرنے کا ۔مگر اس وقت حالت یہ ہے، کہ کشتی ڈوب رہی ہوتی ہے۔ اور رنگیلے جنہیں عیش و عشرت سے غرض ہوتی ہے۔ بڑی لچھے دار زبان میں کشتی ڈوبنے کے ’’دل کش‘‘ منظر بیان کر رہے ہوتے ہیں۔
ماضی سے ہم کیوں کٹے، ایک ہی ملک میں دو قسم کے لوگ کیسے بن گئے، ایک طبقہ کی جمع پونجی، ندی نالوں میں بہہ نکلی ہے اور دوسرا اس پر ڈفلی بجا رہا ہے۔ روم جل رہا ہے۔نیرو بانسری بجا رہا ہے۔ ’’گندم کا درخت‘‘ دو معاشرتوں دیہاتی اور شہری کے فرق کا استعارہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن شہری اور دیہاتی لوگوں کے طرز عمل اور سوچ کو دیکھ کر یہ سچ لگتا ہے، کہ وہ دور تو ابھی موجود ہے بلکہ اس میں مزید ترقی ہوئی ہے، کہ جب لوگ حیرت سے گندم کے درخت کا قدوقامت اورشکل و صورت پوچھا کرتے تھے۔ بظاہر تو اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ سوائے اس کے کہ اس زمانے میں ابھی ’’فاسٹ فوڈ‘‘ اور ہوم ڈلیوری کا چلن نہیں تھا۔ ہوم ڈلیوری اور فاسٹ فوڈ اس مقام تک تولے آئے ہیں، کہ ہمیں، مشرق، مغرب، شمال جنوب کی سمتوں کا پتہ نہیں رہا۔ بھیڑ بکریوں کے گلے میں اونٹ پہچاننے لگے ہیں، دیسی (دیسی کا مطلب اپنے وطن کا) مہینوں کا اتنا بھی پتہ نہیں، کہ بلا کی گرمی اور سردی کن دیسی مہینوں میں پڑتی ہے۔ مونجی (چاول)، کپاس اور گندم کی فصل بلاخیر بارشوں کی زد میں ہوں، تو یہ جشن منانے کا نہیں غم و افسوس کا مقام ہوتا ہے۔ اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ کھانے پینے کی عادات اور طرز معاشرت نے ماضی سے رشتے کاٹ دیئے ہیں۔ ابھی ایک دل جلا پوچھ رہا تھا، کہ خواتین نے شلوار کو کیوں خیرباد کہہ دیا۔ ہم سے صرف اتنا ہی جواب بن پڑا مرضی اُن کی!