بھارت نے ایلس ویلز سے سچ چھپایا ،کشمیری بدستور زیر عتاب ہیں

Jan 27, 2020

اداریہ

امریکی نائب وزیر خارجہ کا کشمیری قیادت رہا کرنے ، اپنے سفارتکاروں کو مقبوضہ وادی میں رسائی دینے کامطالبہ
امریکہ کی معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے بھارت پر مقبوضہ کشمیر میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے زور دیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق حال ہی میں بھارت کا دورہ کرنے والی امریکہ کی معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے واشنگٹن میں نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں تمام سیاسی رہنمائوں کو رہا کرے جنہیں بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھا ہوا ہے۔ایلس ویلز نے غیر ملکی سفارت کاروں کے حالیہ دورہ کشمیر کو مفید اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت ہمارے سفارت کاروں کو کشمیر تک مسلسل رسائی دے۔ایلس ویلز نے بھارت میں متنازع شہریت قانون کے بارے میں کہا کہ میں نے دورہ بھارت کے دوران شہریت قانون سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیا، بھارت میں سڑکوں پر سیاسی اپوزیشن اور میڈیا سمیت عدالتوں کی جانب سے بھی اس قانون کا کڑا جمہوری جائزہ لیا جارہا ہے، امریکا اس قانون کے تحت سب کو مساوی تحفظ دینے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔امریکہ کی معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے کہا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر عملدرآمد آئی ایم ایف کے پیکج اور پاکستان کی معاشی اصلاحات کی کوششوں کی تکمیل کے لیے بہت ضروری ہے۔ایلس ویلز نے کہا کہ امریکہ پاکستان کی طرف سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے تحت دہشت گردی سے متعلق مالی اعانت کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوششوں کا خیر مقدم کرتا ہے۔ پاکستان ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر ادارے اور عالمی برادری سے کیے گیے وعدوں کو پورا کرے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی اعانت کو روکنے کے لیے پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہے۔امریکی نائب وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان کو ملک میں مقیم تمام عسکریت پسند گروہوں کے خلاف بلاامتیاز اور دیرپا کارروائی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک میں لگایا جانے والا چینی سرمایہ امداد نہیں، بلکہ قرض کی شکل میں پاکستان پر بوجھ ہے،ان کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان میں ایسی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے جس سے عوام کو روزگار ملے اور انکی معاشی حالت بہتر ہو۔امریکی کمپنیاں پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں اور انہیں بھی برابر مواقع ملنے چاہئیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت امریکا کے بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات مثالی ہیں۔
بھارتی حکومت نے بدستور کشمیری رہنمائوں کو حراست میں رکھا ہوا ہے۔ یہ رہنما کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ 5 اگست کے بعد سے مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ ہے۔ اپنے ہی وطن کو کشمیریوں کے لیے عقوبت خانہ بنا دیا گیا ہے۔ تمام ذرائع بند کر کے ان کا دنیا سے ناطہ توڑ دیا گیا ہے۔ پابندیاں اس شدت کی ہیں کہ محبوس انسانوں کے لیے جسم اور سانس میں ربط بھی بے ربط ہو رہا ہے۔ کشمیریوں کی حالت زار اور بھارتی فورسز کی بربریت دنیا پر آشکار نہ ہونے دینے کے لیے بھارتی حکومت ہر حربہ اور ہتھکنڈا بروئے کار لا رہی ہے۔ آزاد میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں اور غیر جانبدار ممالک کے سفیروں اور اپنے ہی ملک کے اپوزیشن رہنمائوں پر مقبوضہ کشمیر میں داخلے کی پابندی کے ساتھ ساتھ چھ ماہ سے انٹرنیٹ بند ہے۔ وادی میں انسانی بحران بدترین شکل اختیارکر چکا ہے۔ اتنی سختیوں کے باوجود بھی مقبوضہ وادی کی صورتحال دنیا پر کسی نہ کسی طریقے سے محدود ہی سہی عیاں ہوتی ہے تو بھارتی حکومت عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے جو بھی ممکن ہے ضرور کرتی ہے۔ اس کی طرف سے دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں سب اچھا کی تصویر دکھائی جاتی ہے۔ حتیٰ کے اس کے ادارے سپریم کورٹ میں بھی جھوٹ کا طومار باندھ دیتے ہیں ، سپریم کورٹ جھوٹ اور سچ میں فرق ضرور کر لیتی ہے۔ مگر انصاف کرتے ہوئے اس پر جانبداری کا آسیب مسلط ہو جاتا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے سرکاری وکیل کے وادی میں سب اچھا کی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا مگر کشمیریوں کو ریلیف دینے سے انکار کر دیا۔ کشمیریوں کے انسانی حقوق کا کیس بھارتی سپریم کورٹ میں ہنوز لٹک رہا ہے۔ امتیازی شہریت قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران بھارتی عدلیہ کی آر ایس ایس کی ذہنیت نظر آتی ہے۔
بھارتی سرکار نے ایلس ویلز کو بھی مقبوضہ وادی کی اصل صورتحال سے اندھیرے میں رکھا۔ ان کو بھی سب اچھا کی رپورٹ پیش کی گئی۔ ان کی طرف سے محض زیر حراست رہنمائوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ حالانکہ انسانیت کو شرما دینے والی پابندیاں بدستور برقرار ہیں۔ محترمہ غیر ملکی سفیروں کے دور ے کی تحسین کر رہی ہیں جبکہ کشمیری قائدین علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور التجا مفتی سمیت دیگر نے اس دورے کو دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ 15 ممالک کے منظور نظر سفیروں کو دورہ کرایا گیا ، ان کی فوجی چھائونیوں میں بریفنگ ہوئی اور ان کی حکومت کے حامیوں کے سوا کسی تنظیم سے ملاقات نہیں کرائی گئی۔ امریکہ کو کشمیریوں کی حالت زار کا احساس ہو ہی گیا ہے تو وادی میں اپنے سفارتکاروں سمیت عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رسائی بھی ممکن بنائے۔ فوری طور پر کرفیو ختم کرا کے کشمیریوں کے انسانی حقوق بحال کرائے۔ امریکہ اور بھارت کے مابین تعلقات بڑی قربتیں لیے ہوئے ہیں۔ امریکہ ان تعلقات کو بروئے کار لا کر وہ تنازعہ ہی کیوں طے نہیں کردیتا جس نے جنوبی ایشیاء کا امن غارت کررکھا ہے جس کے اثرات عالمی امن پر بھی مرتب ہوتے ہیں آج مسئلہ کشمیر سلگتے ہوئے چنگاری سے شعلہ بنتا نظر آ رہا ہے۔ بھارت کشمیر کے اندر اپنے مظالم اور شہریت قانون کے خلاف برپا ہوئی بغاوتوں سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے کوئی احمقانہ مہم جوئی کر سکتا ہے۔ جس کی تیاری کئے ہوئے وہ بادی النظر میں موقع کی تلاش میں ہے۔ بھارت کی ایسی حماقت خطے کے ساتھ کرہ ارض کی تباہی کا بھی سبب بن سکتی ہے۔ امریکہ کو اسکا ادراک ہونا چاہئے۔ وہ اپنے دوست کو سمجھانے کی کوشش کرے۔ اس کا یہ دوست ٹرمپ کی بار بار ثالثی کی پیشکش کو ٹھکرا چکا ہے گویا سمجھانے بجھانے کی گنجائش نہیں رہی۔ اب دوسرا پابندیوں کا طریقہ ہی کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔
مسئلہ کشمیر کے حل ہی میں خطے کی بقا ممکن اور عالمی امن برقرار رہ سکتا ہے ۔ ورنہ مودی کی بددماغی پوری دنیا کے امن کو دائو پر لگا سکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے مودی مائند سیٹ کے حوالے سے درست کہا ہے کہ مودی نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر اکانومسٹ کے سرورق کی تصویر کا اشتراک کیا جس میں ’عدم برداشت والا بھارت‘ کی سرخی سے مضمون لکھا گیا ہے جس کے ذیل میں کہا گیا کہ دنیا اب تسلیم کررہی ہے مودی حکومت بھارت اور مقبوضہ جموں کشمیر میں جمہوریت مخالف اور فسطائی نظریے کو مسلط کر رہی ہے۔ مودی کا رویہ علاقائی امن و استحکام کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے جبکہ 80 لاکھ کشمیری اور بھارت میں بسنے والے مسلمان پہلے ہی مودی کی سفاک پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ اُدھر یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں بھارت کے متنازعہ سٹیزن ایکٹ کے خلاف بحث کیلئے قرار داد پیش کر دی گئی ہے۔ راجستھان اسمبلی نے بھی مودی سرکار کے مسلمان مخالف متنازعہ سٹیزن ایکٹ کے خلاف قرارداد منظور کر لی۔ راجستھان کی حکومت نے بھارت کی مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قومی آبادی کی رجسٹریشن سے متعلق نئے قوانین بھی واپس لے۔
آج پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں خوشگواریت پائی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر برتری اور ڈکٹیشن کا احساس کہیں نہ کہیں جاگزیں ہے اسی لیے ایلس نے شاید عادتاً ہی کہہ دیا تمام شدت پسندوں کے خلاف پاکستان کو بلاامتیاز کارروائی کرنا ہو گی۔ دہشتگردوں کی منی لانڈرنگ اور فنڈنگ کے خلاف امریکہ مدد کرتا ہے تو اس کے مزید بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ سی پیک کے حوالے سے پاکستان کا موقف واضح ہے۔ چین نے سی پیک پاکستان پر مسلط نہیں کیا یہ باہمی رضامندی کا معاہدہ ہے۔ امریکہ بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تو زہے نصیب، پاکستان دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہے گا۔ امریکہ کو پاکستان کے مفادات کا احساس ہو گیا ہے تو ایران کے ساتھ گیس معاہدہ پابندیوں سے آزاد کر دے ۔ بھارت کو بھی تو کئی معاملات میں ایران کے ساتھ معاہدوں کی تکمیل کے لئے پابندیوں سے استثناء دیا گیا ہے۔

مزیدخبریں