امریکہ ایران تنازعہ

Jan 27, 2020

امتیاز رفیع بٹ

ایک زمانہ تھا کرہئِ ارض پر دو سپر پاورز تھیں رومن ایمپائر اور پرشین ایمپائر، یہ ایرانی اس وقت تک رومن ایمپائر سے لڑتے رہے جب تک رومن ایمپائر کو یہ زعم رہا کہ وہ دنیا کے اکیلے مالک و مختار ہیں۔ سائیرس دی گریٹ اور دارائِ اعظم اپنے وقت کے بڑے جرنیل تھے۔ سکندر یونانی نے ایران فتح تو کر لیا لیکن وہاں کے تہذیب و تمدن سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے حکم دیا کہ اس ملک کو برباد نہ کیا جائے بلکہ اس نے ایک مقامی شہزادی رخسانہ سے شادی کر لی۔
قادسیہ کی جنگ میں نوشیرواں عادل کا بیٹا یزگرد ایران کا حاکم تھا۔ سعد بن ابی وقاص ؓکی سربراہی میں عربوں نے ایران فتح کر لیا۔ لیکن آج تک نہ تو عربوں نے ان عجمیوں کو حقارت سے دیکھنا چھوڑا نہ ہی ایرانیوں نے عربوں کی برتری کو تسلیم کیا۔دس سالہ عراق ایران جنگ، شمالی اتحاد، طالبان ، القاعدہ، حزب اللہ اورسنی ، شیعہ فرق اسی عرب و عجم کی برتری کی ثقافتی کشمکش کی ایکسٹنشن ہیں۔ یہ جنگ عراق ، شام ، لبنان اور یمن میں لڑی جا رہی ہے۔ امریکہ اور نیٹو ممالک سعودی عرب کے حلیف ہیں جبکہ روس اور چین در پردہ ایران کے ساتھ ہیں۔ امریکہ نے ایران پر پابندیاں سخت سے سخت کر دی ہیں ۔پھر بھی ایران کسی طرح با عزت طور پر قائم ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے عراق ، شام ، یمن اور لبنان میں ایرانی ملیشیاز کیا کر رہے ہیں تو ان سے پوچھا جائے کہ امریکہ بہادر سات سمندر پار سے آ کر وہا ں کیا کر رہا ہے۔ پچھلی کتنی دہائیوں میں وہ سات اسلامی ممالک تباہ کر چکا ہے۔ افغانستان پر 9/11کا بہانہ بنا کر چڑھ دوڑا اُسے’’ تورا بورا‘‘ بنا دیا۔ عراق پر ماس ڈسٹرکشن کے ہتھیاروں کا بہانہ بنا دیا۔ 5لاکھ مسلمان شہید ہوئے ۔افغانستان ، عراق ، شام ، لیبیا اور مصر خانہ جنگی میں مبتلا ہو کر تباہ ہو گئے ۔ اسلامی دنیا خاموش تماشائی ہے۔ ایرانی اس منہ زور سپر پاور کی اپنی اوقات کے مطابق مزاحمت کر رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک عذرِ لنگ بنا کر جنرل قاسم سلیمانی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت پر ڈرون حملہ کا نشانہ بنا کر بغداد ائیر پورٹ پر جدید ریپر ڈرون حملہ میں شہید کر دیا گیا۔ جبکہ جنرل قاسم سلیمانی ایرانی صدر کا ایک اہم پیغام لے کر سرکاری دورے پر عراقی وزیرِ اعظم سے ملنے آیا ہوا تھا۔ یہ جنیوا کنونشن کی صریحاً خلاف ورزی تھی،کیونکہ جنرل قاسم ایران اور سعودی عرب میں مصالحت کے مشن پر تھا۔
ایران نے اس کے جواب میں عراق میں عین اللہ اور اربیل کے امریکی اڈوں پر میزائل داغے ، لیکن اس سے پیشتر انہوں نے عراقی افواج کو حملوں سے متعلق پیشگی آگاہ کر دیا جس کی بدولت کوئی جانی یا بھاری نقصان نہیں ہوا۔ایران نے ذہانت سے کام لے کر جنرل سلیمانی کے قتل کے بعدغم و غصے کے باعث جنگی جنون میںمبتلا اپنے عوام کو بھی کسی حد تک مطمئن کر لیا اور امریکی غیض و غضب کو دعوت دینے سے بھی احتراز کیا ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے آنے والے انتخابات کے پیشِ نظر جنرل سلیمانی کو قتل کر کے اپنے حامیوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کی لیکن ایران نے اس صورتِ حال میں ٹرمپ کی مخاصمانہ چال کو بڑی حکمت سے فوری جنگ و جدل میں بدلنے سے روک لیا ۔ اُدھر اس وقت ٹرمپ کی جنگی پالیسی کی راہ میں ایک واحد رکاوٹ امریکی رائے عامہ ہے جو کسی بھی طرح جنگ کے حامی نہیں ہیں ۔اگر ایران کی جوابی کاروائی میں امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں ہو جاتیں تو شاید امریکی عوام جنگ کے بارے میں اپنے خیالات پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہو جاتی۔ ایران کے لیے خوش آئند بات یہ ہے کہ خود عراقی پارلیمنٹ نے امریکہ کے عراق سے نکل جانے کی قرارداد پاس کی ہے۔امریکہ اور ایران کی یہ کشمکش ابھی تک کرہئِ ارض کے دوسرے 160ممالک کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ دنیا کا ستر فیصد تیل آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے۔ جنگ کی صورت میں یہ تنگ سا رستہ بند ہو جائے گا اور تیل کی بین الاقوامی قیمتیں کئی گنا بڑھ جائیں گی۔ تیسری جنگِ عظیم کے بادل کرہئِ ارض پر منڈلا رہے ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں اتحادی کیسے بنے تھے، تاریخ کے طالبِ علم بھولے نہیں ہیں۔ پھر بھی جرمنی کی اینجلا مرکل اور فرانس کے وزیرِ اعظم نے مشترکہ بیانیہ میں کہا ہے وہ اس جنگ میں حصہ دار نہیں بنیں گے۔ اسلامی ممالک چپ سادھے ہوئے ہیں۔ روس اور چین نے امریکہ کو تنبیہ کی ہے۔ جو ممالک شام میں پراکسی وار لڑ رہے ہیں وہی بظاہر اتحادی بنیں گے۔ اسرائیل سعودی عرب اور حواری ملک امریکہ کے ساتھ جبکہ روس چین اور شام ایران کے ساتھ ہیں ۔ عراق، لبنان، شام اور افغانستان میں امریکی افواج بھی موجود ہیں اور ایران نواز ملیشیاز بھی۔ جنگِ عظیم سوئم نہ بھی ہو ان ممالک میں پراکسی کے محاذ گرم ہو جائیں گے۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ پومپیو کا پاکستانی وزیرِ خارجہ کو فون بہت اہم اور معنی خیز ہے اس کی وجہ پاکستان کی سٹریٹیجک لوکیشن ہے ۔ پاکستان کو اس بار بہت محتاط رویہ اختیار کرنا پڑے گا کیوں کہ اس کے مفادات دونوں ملکوں سے جڑے ہوئے ہیں ۔

مزیدخبریں