ماضی بعید سے دور جدید تک

یہ روشن حقیقت ہے کہ انسان کوئی بھی کام کر تا ہے تو اسے اصلاح کی ضرورت پیش آتی ہے جس کے لیے وہ کسی نہ کسی سے کام سیکھتا ہے ۔ سیکھنے کا عمل استاد سے شروع ہوتا ہے جو فرد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتاہے معاشرے میں استاد کا مقام بلند و ارفع ہے جس کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ انسان کے تین باپ ہیں ایک وہ جو تمہیں اس کائنات میں لانے کا سبب بنا ، دوسرا وہ جس نے تمہیں اپنی بیٹی دی تیسرا وہ جس نے تمہیں علم سکھایا مگر ان سب سے زیادہ عزت وتکریم کا حق دار استاد ہے ۔مگر ہمارے معاشرے میں کل کے استاد و شاگرد اور آ ج کے استاد و شاگرد میں واضح فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا جب استاد کی عزت وتکریم فرض کا درجہ رکھتی تھی مگر آ ج وہ فرض رسمی طور پر بھی ادا نہیں کیا جاتا۔وہ کل کا استاد پرانی سائیکل پر سوار سادگی اور نفاست کا مالک اپنے پیشے اور اور بچوں سے مخلص ہوتا تھا۔ وہ سکول جن کی عمارت عام سی اور سادہ ہوتی تھی۔ بچے درختوں کی چھاؤں میں ٹاٹ پر یا اپنے گھر سے لائی ہوئی بوری پر بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ تیز ھوا چلتی تو زمین سے اڑنے والی مٹی سبھی کو گرد آ لود کر دیتی تھی۔ تختی اور سلیٹ کا زمانہ تھا ہر طرف چاہت و محبت احساس و ہمدردی کی فضا قائم تھی ۔امن و امان کا دور تھا۔ استاد درس نصاب کے ساتھ ساتھ بچوں کی ذہنی،اخلاقی اور مزہبی تربیت کرتے تھے۔ بچوں کے والدین اکثر سکول میں آ کر بچوں کے باریمیں آگاہی حاصل کرتے اور استاد کو تاکید کرتے کہ کردار سازی کی جائے۔ استاد کا خوف بچوں میں منفی رجحان کم کرتا تھا دراصل وہ خوف عزت کی دلیل ہو تا ہوتا۔ بچے استاد کی عدم موجودگی میں وہی رویہ اپناتے جو انکی مو جودگی میں ہوتا تھا ۔ مگر آ ج کا ہمارا استاد اس پرانی سائیکل پر سوار نہیں وہ گاڑی پر ہے۔ آ ج کا سکول ٹاٹ کا نہیں ہماری درسگاہ موسمی اثرات سے بالا ہے ۔بچوں کے ہاتھ میں تختی اور سلیٹ نہیں ہم جدید معاشرے میں چلے گئے ہم آ گے نکل گئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم فرسودہ نظام تعلیم سے آ زاد ہو گئے ہیں۔ ہم نے تختی کی بجائے ٹیبلیٹ دے دیا ہم نے ٹاٹ کی جگہ آ رام دہ کرسیاں دے دیں۔ ہمارے جسم پر وہ سکول کی گرد نہیں کیونکہ ہم جدید ہو گئے ہیں افسوس ہم جدید ہو کر با ادب نہ ہو سکے۔ ہم اپنے اسلاف کی تہذیب وثقافت چھوڑ دی۔ ہم نقطہ شعور کو نہ سمجھ سکے ہاں ہم جدید ہو گئے ہیں…؟ آ ج ہمارا استاد بچے کو کھڑا کر کردے یا کسی بات پر سر زش کر دے تو شام کو اہل خانہ کی فون آ نا شروع ہو جاتا ہے کہ آپ نے بچے کو سزا کیوں دی ؟ جب اس طرح کی سوچ معاشرے میں جنم لے گی تو معاشرہ ترقی کی طرف نہیں بلکہ تنزلی کا شکار ہو گا ۔ استاد کا بھی فرض ہے کہ وہ شفیق بنے مگر جدید نظام تعلیم نے اپنی ثقافت بھی چھین لی۔ ہم سے بزرگوں کی عزت کرنے والی قوم دور ہو گئی،ہم قوم نہیں ہجوم بن گئے جب تک ہم استاد کے مقام و مرتبے کا تعین نہیں کر یں گے تب تک با شعور معاشرہ جنم نہیں لے سکے گا
( شفاقت حسین عباسی، مری)

ای پیپر دی نیشن