بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا جھوٹ کھل کر دنیا پر آشکار ہو گیا۔۔۔

Jan 27, 2021

شہزاد احمد چوہدری 
sehota62@hotmail.com
ایک مشہور کہاوت ہے کہ جھوٹ بہت تیز دوڑتا ہے، مگر منزل پر ہمیشہ سچ ہی پہنچتا ہے۔ یہی بات بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور انکی انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے بارے میں صادق آتی ہے، جو کہ اب کھل کر دنیا کے سامنے آشکار ہو چکی ہے کہ مودی سرکار  نے صرف اپنے سیاسی فائدہ اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطر پلوامہ ڈرامہ از خود رچایا تھا، جس میں انہوں نے انتہائی بے دردی سے 40 بھارتی فوجیوں کو ہلاک کرتے ہوئے، ان سب کا الزام پاکستان پر تھوپنے کی انتہائی بھونڈی کوشش کی تھی۔ جس میں وہ بری طرح سے ناکام رہے۔یہ سچ اب انتہائی بھونڈے اور برے طریقے سے دنیا کے سامنے آشکار ہوا ہے کہ بھارتی میڈیا بھی اسے اپنی عوام اور دنیا بھر سے چھپانے میں مکمل ناکام ہوگیا ہے۔ساتھ ہی اس معاملے سے بھارتی سرکار اور میڈیا کے باہمی گٹھ جوڑ کا بھانڈہ اس برے طریقے سے پھوٹا ہے کہ جس سے یہ بات بھی عیاں ہو گئی ہے کہ بھارتی میڈیا اپنی حکومت کے اشاروں پر ہی ناچتا ہے اور وہ از خود کوئی سوچ اور سمجھ بوجھ نہیں رکھتا ہے۔دوسری طرف بھارتی اینکر ارناب گوسوامی کے کالے کرتوتوں سے یہ بات بھی بظاہر عیاں ہو چکی ہے کہ بھارت میں اعلیٰ ترین سطح پر ہونے والے حکومتی اور عسکری فیصلوں کا کیا معیار ہے؟ ان تمام گورکھ دھندوں کے بارے میں بھارت کی سب سے بڑی حزب اختلاف کی جماعت کانگریس  بالا کوٹ حملے کو قومی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے، بھارتی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیتی رہی ہے ۔اب ارناب گوسوامی کی مبینہ واٹس ایپ پیغامات کے افشاء پر متعدد سوالات اٹھاتے ہوئے، اس کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کرنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔کانگریس کے مرکزی رہنماؤں اے کے انتھونی،غلام نبی آزاد، سیشل کمار شینڈے، سلمان خورشید اور پارٹی کے ترجمان پون کھیڑا نے کہاہے کہ معروف صحافی ارناب گوسوامی اور براڈ کاسٹ آڈینس ریسرچ کونسل کے سابق سربراہ پارتھو داس گپتا کے درمیان بالا کوٹ حملے کے حوالے سے واٹس ایپ پر ہونے والی گفتگو کا منظرِ عام پر آنا انتہائی تشویشناک اور ملکی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ ہے، جس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئے۔اْنہوں نے کہا کہ بالاکوٹ حملے کے بارے میں کسی صحافی کو معلومات ہونا غیر معمولی بات تھی، کسی بھی فوجی کارروائی کے بارے میں اطلاعات انتہائی خفیہ ہوتی ہیں اور صرف پانچ اعلی سطحی حکومتی عہدیداروں جن میں وزیر اعظم، وزیر داخلہ، وزیر دفاع، مسلح افواج کے سربراہان اور مشیر قومی سلامتی ہی اس سے واقف ہوتے ہیں،ان کے علاوہ ان اطلاعات کا افشاء کرنا انتہائی سنگین جرم ہے، گوسوامی کی یہ حرکت آفیشیل سیکرٹ ایکٹ (او ایس اے) 1923 کی دفعہ 5 کی صریح خلاف ورزی ہے، قومی سیکورٹی اس معاملے کو  کسی بھی غیر متعلقہ افراد کو ان معلومات کے افشاء  سے روکتی ہے۔ ارناب گوسوامی کو قومی سلامتی کے منافی، بالاکوٹ حملے  متعلق معاملہ کو کس طرح سے افشاء کیا گیا؟ اس کی تحقیقات انتہائی ضروری ہیں۔ ایک دیگر کانگریسی رہنما اور مرکزی حکومت کے ایک سابق وزیر منیش تیواری نے اس معاملے پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے تحقیقات کرانے کا عندیہ دیتے ہوئے بھارتی سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ’’اگر میڈیا میں منظر عام پر آنے والی تمام باتیں درست ہیں تو پاکستانی فضائی حدود میں بالا کوٹ پر نام نہاد حملے اور اسکی فضائی حدود کی جس انداز میں خلاف ورزی کی گئی اور اس کاروائی کی بدولت 2019ء کے منعقدہ بھارت کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی گئی، اس تمام معاملات میں انتہائی گہرا تعلق ثابت ہوتا ہے۔بھارت کے ایک سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے اپنے ایک ٹوئٹ کے ذریعے بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سے سوال کیا ہے، ’’اگر اس فضائی حملے سے تین دن قبل ایک صحافی اور اس کے ساتھی کو بالا کوٹ پر بھارت کی اس جوابی فضائی کارروائی کے بارے میں پیشگی علم تھا، تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ بھارت میں پاکستان کے لئے کام کرنے والے جاسوسوں، مخبروں سمیت دیگر لوگوں کے ساتھ ان تمام خفیہ معلومات کا تبادلہ نہیں کیا گیا ہو گا؟ بھارتی ریاست مہاراشٹر کی حکمراں جماعت شیو سینا اور مغربی بنگال کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس نے بھی اس واٹس ایپ چیٹ کے حوالے سے مودی حکومت پر شدید حملے اور الزامات عائد کئے ہیں۔ 
اس سلسلہ میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا کہنا ہے کہ معروف انڈین صحافی کی واٹس ایپ چیٹ سے مودی سرکار اور بھارتی میڈیا کے مابین ’گٹھ جوڑ‘ بے نقاب ہو گیا ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ان کا کہنا تھا کہ 2019 میں جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں انھوں نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ مودی سرکار نے بالاکوٹ بحران کو کیسے اپنی انتخابی فتح کے لیے استعمال کیا اور جنوبی ایشیا کے امن و سلامتی کو عدم استحکام کی آگ میں جھونکنے والے نتائج سے بے نیاز ہو کر محض انتخابی فتح کے لیے خطرناک ترین عسکری حماقت کا سہارا لیا گیا۔ بالاکوٹ پر نہایت ذمہ دارانہ اور نپے تلے ردعمل سے پاکستان نے بڑا بحران ٹالا۔ اس کے باوجود مودی سرکار بھارت کو ایک بدمعاش ریاست میں بدلنے پر تلی ہوئی ہے اور بھارت کی جانب  سے پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دی جارہی ہے، جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف وزیاں کی جارہی ہیں۔" پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے ردعمل میں ممبئی پولیس کی جانب سے بھارتی عدالت میں کئے گئے، ان انکشافات نے دنیا کے سامنے بھارتی حکومت کا بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔جس سے پاکستان اپنے موقف میں ایک بار پھر سرخرو ثابت ہوا ہے،’’ پاکستان کی جانب سے پہلے ہی اس بھارتی پروپیگنڈے کی قلعی کھول کر رکھ دی تھی، کہ 2019 کے پلوامہ حملے سے بھارت سرکار کو فائدہ ہوا اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے لوک سبھا کے انتخابات میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی"
بھارتی اینکر ارنب گوسوامی اور بھارتی براڈ کاسٹ آڈئینس ریسرچ کونسل کے سربراہ کی واٹس ایپ چیٹ نے ساری دنیا میں مودی کو رسوا کر دیا۔ اس مبینہ واٹس ایپ چیٹ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی صحافی کو پاکستان کے بالاکوٹ پر 26 فروری 2019 کو بھارتی فوج کے فضائی حملے سے تین دن قبل ہی اس بارے میں سب کچھ معلوم ہو گیا تھا۔ارنب گوسوامی نہ صرف بالاکوٹ پر حملے، بلکہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے متعلق بھی پیشگی آگاہی حاصل تھی، اس نے ناصرف بی اے آر سی کے سربراہ کے ساتھ مل کر اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے کام کرتا رہا بلکہ ارنب نے بی اے آر سی سربراہ کو پاکستان کے حوالے سے تین دن قبل ہی بڑی خبر کی پیشگی اطلاع دیتے ہوئے، پاکستان کیخلاف معمول سے بڑی کارروائی سے آگاہ کیا تھا اور گوسوامی کو کشمیر میں معمول سے ہٹ کر کچھ بڑے اقدام کی اطلاع دی تھی۔جس کے ذریعے مودی سرکار، پاکستان مخالف کارروائی کے ذریعے بھارتی عوام کو خوش کرنا چاہتی تھی۔ گوسوامی کی بھارتی قوم پرستی درحقیقت صرف ٹی آر پیز حاصل کرنے کا بہانہ تھی، بھارتی فیصلہ ساز بھی ٹی آر پیز کے جنون میں مبتلا اس مسخرہ نما اینکر کے ہاتھوں کھیلتے رہے تھے۔پلوامہ واقعہ جو کہ 14 فروری 2019ئ￿  کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی جانب سے ترتیب دیا گیا تھا، جس میں انتہائی جبر و تشدد اور قتل و غارت گری کے منصوبے اور خودکش کار بم حملے کے ذریعے سے بھارتی فوجیوں کی بس کو نشانہ بنایا گیا تھا۔جس میں 40 بھارتی فوجی ہلاک اور 45 زخمی ہوگئے تھے۔ تباہ ہونے والی بس میں 35 اہلکار سوار تھے۔اس کار بم دھماکہ میں 350 کلوگرام دھماکہ خیز مواد استعمال ہوا تھا۔ جو کہ صرف بھارتی افواج ہی مذکورہ واقعہ کے لئے مہیا کر سکتی تھی۔ مذکورہ فوجی قافلے میں 70 گاڑیاں، جن میں 25 سو اہلکار بھی سوار تھے۔اس حملے کے فوراً بعد ہی بھارتی حکام نے الزام عائد کیا تھا کہ اس واقعہ میں جیش محمد گروپ ملوث ہے۔بھارت کی جانب سے ہمیشہ سے ہی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر کسی تحقیقات کے کسی بھی حملے کی ذمہ دار پاکستان پر عاہد کرتے ہوئے الزام تراشی کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔مگر پاکستان کی جانب سے ہمیشہ کی طرح بھارت سے مثبت بات چیت رواہ رکھے جانے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔پلوامہ میں بھارتی فوجی قافلے پر خودکش کار بم حملے کے بعد بھی بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں اس کی جانب سے پاکستان سے پسندیدہ ملک کا درجہ واپس لے لیا گیا، پاکستانی ہائی کمشنر کو بھارتی دفتر خارجہ طلب کر کے اس حملے کا بے بنیاد الزام بھی دھریا گیا تھا۔وزیر اعظم مودی نے الزام لگایا کہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والے پڑوسی ملک نے بڑی غلطی کی ہے۔ جس کی پاکستان کو کڑی سزا بھگتنی ہوگی۔ مودی نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ اگر پڑوسی ملک یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس طرح کی حرکتوں اور سازشوں سے ہمارے ملک کو غیرمستحکم کرے گا تو وہ یہ خواب دیکھنا چھوڑ دے۔ اس طرح بیان بازی کی بڑی وجہ بھارت میں 2019 کے عام انتخابات تھے۔ جس میں مودی کی بی جے پی سرکار کو صاف شکست دکھائی دے رہی تھی اور وہ صرف اپنے ہندو ووٹروں کے جذبات کو اپنے مقاصد کے حصول اور انتخابات میں اپنی جیت یقینی بنانے کے پرانے حربوں کو آزما رہی تھی۔ بھارت کے ریپلک ٹی وی کو اگر مشہور ترین ٹی وی چینل نہ بھی کہا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران یہ چینل اور اس کے شریک مالک اور نیوز اینکر ارنب گوسوامی سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ زیر بحث رہتے رہے ہیں۔بھارتی جمہوریت میں ملکی صحافت کا کردار کلیدی رہا ہے۔ تاہم بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دور اقتدار میں صحافیوں کے لیے کام کرنے میں مشکلات بھی بڑھی ہیں۔جہاں میڈیا کے دیگر ادارے آزادی صحافت پر قدغنوں کی شکایات کرتے دکھائی دیتیہیں، وہیں ارنب گوسوامی اور ان کا چینل محض چند برسوں میں ہی ملکی میڈیا کے منظر نامے پر غالب آ چکے ہیں۔ارنب گوسوامی جارحانہ انداز میں مودی حکومت اور دائیں بازو کے نظریات کی حمایت میں بھی پیش پیش رہتے ہیں اور وہ مخالفین پر شدید تنقید کرنے میں بھی شہرت رکھتے ہیں۔وہ خودکشی کے لیے اکسانے کے ایک کیس میں کچھ عرصے قبل جیل بھی کاٹ چکے ہیں۔بھارت میں سیاسی اور صحافتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چونکہ ارنب گوسوامی حکمراں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی اعلی قیادت کے نور نظر ہیں۔ لہذا ملکی سلامتی کے حوالے سے اتنے بڑے انکشاف کے باوجود ان کے خلاف کسی سخت کارروائی کی امید کرنا انتہائی فضول عمل ہو گا۔واضح رہے کہ پاکستان نے پلوامہ واقعہ سے فوراً بعد ہی بھارت سے مشترکہ تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا تھا، جس پر بھارت نے پیٹھ دکھائی تھی۔ کیونکہ پاکستان کو اس بات کا پیشگی علم تھا کہ ممبئی اور پارلیمنٹ حملوں کی طرح یہ بھی بھارت کا ایک ڈرامہ ہی ہے۔ خاص طور پر جب مودی کو الیکشن میں اکثریت چاہیے تھی تو وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔ صرف پاکستان ہی نہیں بہت سے بھارتی دانشوروں کو علم تھا کہ یہ ایک ڈرامہ تھا۔مثلاً بھارتی پروفیسر اشوک سوائین پہلے ہی پلوامہ کو ڈرامہ قرار دے چکے ہیں۔ جنہوں نے کہا تھا کہ مودی نے پلوامہ میں وہی کیا جو اس نے 2002 میں گجرات میں کیا۔ اشوک سوائن کے مطابق مودی نے ووٹ بٹورنے کیلئے پلوامہ ڈارمہ ہونے دیا۔گوسوامی کی چیٹ سامنے آنے کے بعد ثابت ہو گیا کہ مودی نے سیاسی فائدے کے لئے اپنے ہی عوام حتی کہ اپنے فوجیوں کا استعمال اور انہیں مروایا گیا۔ مودی نے بھارتی فوج کو استعمال کرکے جنرل بپن راوت کو سیاسی رشوت سے نوازتے ہوئے ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں ایک نئے عہدے پر بطور چیف آف ڈیفنس سٹاف مقرر کیا گیا۔ بھارتی فضائیہ بھی صرف مودی کے سیاسی فائدے کے لئے جھوٹ بولتی رہی اور انتخابی مہم کا حصہ بنی رہی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ بھارتی میڈیا بھی صرف ایک بکاؤ مال ہے۔جسے جھوٹ بولنے کے خاطر ٹی آر پیز کی رشوت دے کر خریدا گیا۔ مودی سرکار کے پروردہ صحافی ارناب گوسوامی کو ایک خاتون اور اس کے بیٹے کی خودکشی پر گرفتار کیا گیا تھا۔ جس پر الزام تھا کہ اس نے ماں بیٹے کو خودکشی پر اکسایا ہے۔ اس نے گرفتاری کے دوران ایک خاتون افسر پر حملہ بھی کیا۔ اس کے پکڑے جانے پر مودی سرکار بھی سرگرم ہوئی اور سپریم کورٹ نے بھی گوسوامی کے حق میں ڈنڈی ماری تھی۔ جس پر بھارتی سپریم کورٹ بار کے صدر بھی احتجاجاً مستعفی ہو گئے تھے۔ یوں مودی سرکار بارے بین الاقوامی ہفتہ وار میگیزین اکانومسٹ کی رپورٹ سچ ثابت ہوئی کہ من پسند لوگوں کی حکومتی پشت پناہی، مودی کے بھارت کا وطیرہ بن چکی ہے۔بھارتی عدالتیں صرف حکومتی من پسند لوگوں کو ہی ریلیف دینے میں مصروف ہیں۔بھارتی حکومت کے وزراء نے متنازعہ بھارتی صحافی کی ضمانت منظو ر کروائی۔ وزراء  کی جانب سے متنازع صحافی ارناب گوسوامی کی ضمانت منظور کرانا ایک بدترین مثال ہے۔ کیونکہ ارناب گوسوامی کیس ہرگز آزادی اظہار رائے کی نمائندگی نہیں کرتا۔ نریندر مودی بھارت کو یک جماعتی ریاست بنانے میں مصروف ہیں۔مودی کے بھارت میں اداروں کے اختیارات کا توازن بھی ختم ہو گیا، جہاں آزادی اظہار پر بھی غاصبانہ قانون بنائے گئے۔ بھارتی وزرا ریاسی اداروں کے اختیارات استعمال کرنے لگے ہیں۔ 
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف کا کہنا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف 20 سال سے دہشت گردی کا ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ پاکستان کو بھارتی چوریوں پر حیران ہونا چھوڑ دینا چاہیے۔ بھارت ایک مافیا اور روگ سٹیٹ ہے۔ پاکستان کی جانب سے دنیا کو بطورِ ریاست ثبوتوں کے ساتھ آگاہ کیا جاتا رہا کہ پلوامہ حملہ بھارت کا جعلی آپریشن تھا۔ اب بھی دنیا کو بار بار مطلع کر رہے ہیں کہ بھارت اس طرح کا ایک اور جعلی آپریشن بھی کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر دنیا کے ممالک کو بھارتی حکومت کی جانب سے کئی گئی تخریبی کارروائیوں کے تمام ثبوتوں کے ساتھ ایک ڈوزیئر بھی دیا گیا ہے۔پاکستان کی جانب سے دنیا کو پیش کئے گئے شواہد کی بنیاد پر نتائج کے آنے تک بھارت کے مکروہ چہرے کو مسلسل بے نقاب کرتے رہیں گے۔پلوامہ، ممبئی اور دیگر تمام دہشت گردی کی وارداتوں کے راز افشاء ہونے پر بھارتی ذہنیت عیاں ہو گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کے 44 بینکوں کی جانب سے بھی عالمی سطح پر دہشت گردوں کیلئے فنڈنگ کے ذمہ دار قرار دیئے گئے۔ جس پر پاکستان کی جانب سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سمیت دیگر عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے  کہ اب وہ بھی بھارت کیخلاف کارروائی کریں۔ عالمی اداروں کو دنیا کو بھی اس بارے میں انصاف سے کام لینا چاہیے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے بھی اسی سلسلے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ تازہ شواہد نے بھارت کو مزید بے نقاب اور پاکستان کے موقف کی تائید کردی ہے۔ بی جے پی حکومت نے فالس فلیگ آپریشن رچایا۔ پاکستان پر دہشت گردی سے متعلق جھوٹ باندھا۔ بھارت کے اندر قوم پرستی کی آگ کو مزید بھڑکایا۔ نام نہاد سرجیکل سٹرائیک کے دعوے کرنے کے علاوہ انتخاب جیتنے کی خاطر اپنی قوم کے جذبات کو گمراہ کن رخ پر ڈالا گیا۔ یہ طرز عمل بلاشبہ آر ایس ایس، بی جے پی حکومت کے انتخابی اندازوں کے مطابق دہرایا گیا۔حالیہ مہینوں میں عالمی برادری کے سامنے بھارت کی ریاستی سرپرستی میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہونے اور پاکستان مخالف جھوٹی عالمگیر مہم چلانے کے ناقابل تردید شواہد آچکے ہیں۔ پلوامہ نے بھارت کے مکروہ اور مذموم عزائم مزید بے نقاب کردئیے اور پاکستان کے دیرینہ موقف کی تائید و تصدیق کردی ہے۔تازہ انکشافات سے ثابت ہوگیا کہ پاکستان اب تک جن امور کی مسلسل نشاندہی کرتا آ رہا ہے، وہ تمام حقائق درست ہیں۔ پاکستان بھارتی اشتعال انگیزیوں کے باوجود سچائی اور حقائق کی روشنی میں بھارتی جھوٹ اور شرانگیزیاں بے نقاب کرنے کی اپنی کوششیں ذمہ داری کے ساتھ جاری رکھے گا۔انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دہشت گردی پر بھی مودی کا بھارت بے نقاب ہو گیا ہے۔ منی لانڈرنگ اور یورپی یونین کی ڈس انفولیب مہم پر بھی مودی کا بھارت بے نقاب ہو چکا ہے، ہندوؤں کے علاوہ دیگر اقلیتوں سے بد سلوکی، ای یو، یو این مخالف مہم میں مودی کو منہ کی کھانا پڑی۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری بھارت کے اصل گھناؤنے چہرے کا نوٹس اور اس سے باز پرس اور جواب طلبی کی جائے۔لیکن بدقسمتی سے بھارت کو ماضی میں عالمی برادری کی طرف سے ہمیشہ ریلیف دیا ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ اب عالمی برادری صورتحال کا حقیقی معنوں میں ادراک کرتے ہوئے علاقائی ماحول خراب کرنے اور جنوبی ایشیا کے امن و سلامتی کو خطرے میں ڈالنے پر بھارت کو کٹہرے میں کھڑا کرے گی۔واضح رہے کہ بھارت کی حزب اختلاف کی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اس معاملے کی پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے ذریعے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔کانگرس کے ایک رہنما سری واستا نے بھی اپنے ٹویٹ کے ذریعے بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے ان الزامات کی تحقیقات کے لیے از خود نوٹس لینے کے بارے میں مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا تو پھر یہ بجا طور پر یہ تصور کیا جائے گا کہ بھارتی  عدلیہ کے ججوں کو بھی خریدا جا سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے امور پر گہری نظر رکھنے والے امریکی تجزیہ نگار مائیکل کگلمین نے اپنے ایک ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ کیسے ایک انڈین صحافی نے مبینہ طور پر 2019 میں پلوامہ حملے سے تین دن قبل واٹس ایپ پر بات چیت کے دوران کہا کہ اس واقعے کی کوریج سے ان کے چینل کی ریٹنگ میں اضافہ ہو گا؟ بھارت میں نشریاتی اداروں کی تنظیم نیوز براڈ کاسٹ ایسوسی ایشن نے بھی اس سارے معاملے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

مزیدخبریں