عظیم یونانی فلاسفرافلاطون نظام حکومت پرعمیق تحقیق کے بعد اپنی کتاب ’’ری پبلک‘‘میں لکھتے ہیں: ’’جب کوئی تاجر حکمران بنتا ہے تو پھر تباہی آتی ہے ’’افلاطون کے شاگرد اورسکندراعظم کے استاد ارسطو نے اپنی کتاب’’پولیٹکس‘‘کی بک تھری میں لکھا ہے کہ کاروباری امراء کے حکومت میں آنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ دولت کی بنا پر بہت مغرور ہو جا تے ہیں اور آقا بن بیٹھتے ہیں اور با قی عوام کو اپنا غلام تصور کرنے لگتے ہیں،جبکہ وہ قانون کو اپنی باندی بنانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔ افلاطون اورارسطو کے ان نظریات کی تشریح کچھ یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ تاجرحضرات حکومت کوتجارت کی طرح چلاتے ہیں اورسرکاری افسروں کو اپنا ذاتی ملازم بنا لیتے ہیں۔ جب انہیں ایک بارحکومت کا چسکا پڑ جا تا ہے تو وہ اسے اپنی خاندانی ملکیت سمجھنے لگتے ہے اورجب وقت آنے پران سے حکومت چھن جاتی ہے تو انھیں ایسا لگتا ہے جیسے ان سے انکی ملکیت کوئیِ فیکٹری یا انکی خاندانی وراثت ان سے چھین لی گئی ہے۔ افلاطون اور ارسطو کی حقیقت پر مبنی اس پرمغز فلاسفی کا عملی نمونہ تو ہم 1988ء سے نوازشریف اینڈ کمپنی کے اقتدار کے کھلواڑمیں دیکھتے چلے آ رہے ہیں،مگر اسکی مسلمہ حقیقت اس وقت آشکار ہوئی جب دنیا میں جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار امریکہ کے پارلیمنٹ ہائوس کیپیٹل ہل واشنگٹن میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بپھرے ہوئے حامیوں کے حملے کی خبر پوری دنیا کو حیرت زدہ کرگئی۔6 جنوری کو ہو نے والے اس حملے میں ایک خاتون اورایک پولیس افسر سمیت سات لوگ ہلاک ہوے۔تمام میڈیا رپورٹس اور ریپبلیکن پارٹی کے ممبروں سمیت اکثریت نے اس پر تشدداور المناک واقعہ کا ذمہ دار ٹرمپ ہی کوٹھہرایا۔ جس نے ایلپس پارک کی ریلی میں اپنے سپورٹرزکو اس حملے کیلئے اکسایا۔اس ریلی میں ٹرمپ نے اپنے اس الزام کو ایک مرتبہ پھردہرایا تھاکہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اور انکے الیکشن کو چرالیا گیا ہے اور وہ کسی صورت الیکشن کے ان نتائج کو تسلیم نہیں کرینگے۔ ٹرمپ کی اس طرح کی تقریروںاوربیانات کے بعد اسکے حا میوں کی جانب سے کیپیٹل ہل پر عین اس وقت حملہ کیا گیا جب الیکشن کے فائنل آفیشل رزلٹ کیلئے کیپیٹل ہل میں لامیکرزکا اجلاس ہورہا تھا۔امریکہ جیسے ترقی یافتہ اور مہذب ملک میں ہونے والا یہ واقعہ یقیناً اس کیلئے نہ صرف انتہائی ندامت کا با عث بنا بلکہ کم از کم پچھلی ایک صدی میں اس نوعیت کے واقعے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔اسکا سہرا یقیناً امریکہ کے بزنس ٹائیکون ڈونلڈ ٹرمپ کے سر ہے اور بالکل اسی طرح کا ایک سہرا پاکستانی بزنس ٹائیکون محترم نواز شریف کے سر پر بھی سجا ہے۔جب 28 نومبر1997ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان پر نوازشریف کی سوچی سمجھی سازش کے تحت عین اس وقت حملہ کیا گیا جب چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت میں نوازشریف کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہو رہی تھی۔نواز شریف کے پروردہ حامیوںجن میں مرحوم معروف ٹی وی کمپیئر اوراس وقت کے ایم این اے طارق عزیز اور دیگر ممبران اسمبلی نے مل کر ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت پرہلّہ بول دیا سپریم کورٹ کی عمارت میں توڑپھوڑکی اور قائداعظم کی تصویر اتارکر زمین پر پھنیک دی۔چیف جسٹس آف پاکستان کیخلاف شدید نعرے بازی کی اور انکی عدالت میں گھسنے کی کوشش کی۔چیف جسٹس کو فوراً عدالت کی کارروائی ملتوی کرنا پڑی اور اٹھ کر اپنے کمرے میں پناہ لی۔اس ہجوم کی قیادت نوازشریف کا پولیٹیکل سیکرٹری مشتاق طاہرخیلی کر رہا تھا۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسکے بعد کس طرح سے ججوں کو تقسیم کیا گیا اور پھر کوئٹہ بنچ کے دو ججوں سے چیف جسٹس کیخلاف بغاوت کرائی گئی جو کہ پاکستانی سیاست کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہے۔نواز شریف کی کینہ پروری اور شاہانہ طرزسوچ کا اندازہ اس حملے کے پس منظر میں لکھے گئے اس واقعے میں پوری طرح عیاں ہے جو نوازشریف کے معتمد خاص اور اس دورکے وزیرخارجہ گوہر ایوب نے اپنی کتاب ’’گلمپسز ان ٹو دی کوری ڈورزآف پاور‘‘ میں بیان کیا ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ جب سجاد علی شاہ نے نوازشریف پر توہین عدالت کیس کی سماعت شروع کی تو اس پر نوازشریف بہت سیخ پا ہوئے اور ایک دن انہوں نے گوہر ایوب کو فون کرکے فوراً اپنے چیمبر آنے کا کہا جب وہ وہاں پہنچے تو نوازشریف کے پاس پرولج کمیٹی کے چیئرمین اور ممبرز بھی موجود تھے۔وہاں نواز شریف نے اپنی اس خواہش بے کراں کا اظہار کیا کہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو کسی طرح پرولج کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا کہا جائے اور اس پر توہین پارلیمنٹ کا کیس چلایا جائے۔گوہر ایوب نے انہیں بتایا کہ ایسا ممکن نہیں ہوگا اور اگر ہم نے ایسا کر بھی لیا اور وہ پیش نہ ہوئے تو ہماری جگ ہنسائی ہو گی۔ اس کے بعد نواز شریف وہاں سے اٹھے اور گوہر ایوب کو اپنے ساتھ پرائم منسٹر ہائوس چلنے کو کہا۔ راستے میں گاڑی میں نواز شریف نے ا کے گھٹنے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:’’گوہر مجھے کوئی ایسا طریقہ بتائو کہ چیف جسٹس کو گرفتار کریں اور ایک رات کیلئے جیل میں رکھیں‘‘گوہر ایوب نے انہیں بتایا کہ قواعد و ضوابط میں ایسی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ (جاری )