ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی چشم کشا رپورٹ

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن پر سال 2021ء کی رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔ کرپشن کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے اور پاکستان بہتری کے بجائے تنزلی کی طرف چلا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں حکومتی دعوئوں کے برعکس کرپشن بڑھی ہے اور 180 ممالک کی عالمی فہرست میں پاکستان کی تنزلی 16 درجے رپورٹ کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان 28 پوائنٹس کے ساتھ کرپشن کے بارے میں عالمی رینکنگ میں 140ویں نمبر پر آگیا ہے۔ گزشتہ سال کرپشن پر سیپشن انڈکس میں پاکستان کا نمبر 124واں تھا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن نہ ہونے کے سکور میں تین پوائنٹ کی کمی ہوئی ہے۔ 2021ء میں پاکستان 100 میں سے صرف 28 پوائنٹ حاصل کرسکا جبکہ گزشتہ سال یہ سکور 31 تھا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلہ میں پاکستان میں کرپشن بڑھی ہے۔ جب موجودہ حکومت نے 2018ء میں اقتدار سنبھالا اس وقت پاکستان کا کرپشن انڈکس میں 117واں نمبر تھا۔ 2019ء میں پاکستان درجہ بندی میں 120 اور 2020ء میں 124ویں نمبر پر تھا۔ اب 2022ء میں پاکستان عالمی درجہ بندی میں 140ویں نمبر پر آگیا ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ موجودہ دور حکومت میں پاکستان کی 23 درجے تنزلی ہوئی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں جنوبی سوڈان کو دنیا کا کرپٹ ترین ملک قرار دیا گیا ہے جو عالمی درجہ بندی میں آخری پوزیشن پر ہے جبکہ فن لینڈ‘ نیوزی لینڈ اور ڈنمارک کو کرپشن کیخلاف 88 سکور کے ساتھ پہلے نمبر پر قرار دیا گیا ہے۔ سال 2021ء کی عالمی درجہ بندی میں امریکہ 67 پوائنٹس کے ساتھ 27ویں اور بھارت 40 پوائنٹس کے ساتھ 85ویں نمبر پر رہا۔
دنیا کے مختلف ممالک میں کرپشن کی شرح‘ اسکی وجوہات اور اس میں حکومتوں کے عمل دخل کا ٹھوس ثبوتوں اور شواہد کے ساتھ جائزہ لینے والا تھنک ٹینک ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل عالمی شہرت و ساکھ کا حامل ادارہ ہے جو 1993ء میں عالمی بنک کے درجن بھر سابق حکام نے باہم مل کر تشکیل دیا تھا۔ اس کا ہیڈکوارٹر جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ہے جبکہ دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک میں اسکی شاخیں قائم ہیں۔ اس ادارے میں متعلقہ ممالک کی کسی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں جسے ایک آزاد‘ غیرمنفعت بخش غیرحکومتی ادارے کی حیثیت سے جرمنی میں رجسٹرڈ کرایا گیا۔ اسے دنیا میں کرپشن جانچنے کے بیرومیٹر کا درجہ حاصل ہے اور دنیا کے مستند نمائندہ اداروں جی۔20، اقوام متحدہ، یونیسکو‘ یواین ایس ڈی جی کی اسے معاونت حاصل ہے۔ گلوبل سول سوسائٹی آرگنائزیشن کی حیثیت سے یہ ادارہ دنیا کے 180ممالک میں کرپشن کی بنیاد پر ہونیوالی ناانصافیوں کی نشاندہی کرکے انکے سدباب کیلئے گائیڈ لائن مہیا کرتا ہے چنانچہ اس ادارے کی کسی رپورٹ پر انگلی اٹھانا یا شک و شبہ کا اظہار کرنا کسی سیاست کے زمرے میں ہی شامل کیا جا سکتا ہے۔ 
بے شک پاکستان کو بھی اس ادارے میں نمائندگی حاصل ہے جس کے ذریعے پاکستان میں کرپشن کے عوامل و محرکات کا جائزہ لیا جاتا ہے تاہم اس ادارے کی رپورٹ کسی مخصوص نکتۂ نظر سے ہرگز مرتب نہیں کی جاتی۔ اس ادارے کے چیئرمین ڈیلیا فیریا روبیو اور منیجنگ ڈائریکٹر ڈینئل ایرکسن بذات خود عالمی شہرت و ساکھ کی حامل شخصیات ہیں اور اسی حوالے سے موجودہ حکمران پی ٹی آئی اور اسکی قیادت پاکستان میں کرپشن کے معاملات پر اپنے اپوزیشن کے دور میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹوں پر ہی صاد کرتی رہی ہے جن کی بنیاد پر سابق حکمرانوں پر کرپشن کے الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی رہی۔ اس تناظر میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ حکمران پی ٹی آئی کیلئے لمحۂ فکریہ ہونی چاہیے کیونکہ اس میں بغیر کسی لگی لپٹی کے پی ٹی آئی دور میں کرپشن بڑھنے کی نشاندہی کی گئی ہے اور اسکے چیدہ چیدہ نکات میں حکومتی گورننس کی کمزوری کو بھی کرپشن بڑھنے کی وجہ قرار دیا گیا ہے چنانچہ پی ٹی آئی حکومت ملک میں کرپشن بڑھنے کے عوامل سے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔ 
یہ امر واقعہ ہے کہ پی ٹی آئی اور اسکے قائد عمران خان کو 2018ء کے انتخابات میں اقتدار کا مینڈیٹ ہی انکے کرپشن فری سوسائٹی کے نعرے کی بنیاد پر حاصل ہوا تھا اور پی ٹی آئی حکومت گزشتہ چار سال سے سابق حکمرانوں کے چور ڈاکو ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ کر سیاسی ماحول گرمائے ہوئے ہے جس میں سابق کرپٹ حکمرانوں کو این آر او نہ دینے کا تواتر کے ساتھ دعویٰ کیا جا رہا ہے اور منتخب ایوانوں میں بھی انہیں منتخب نمائندے کی بجائے قومی مجرم کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اگر ان تمام تر حکومتی دعوئوں اور اعلانات و اقدامات کے برعکس خود پی ٹی آئی حکومت ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق کرپشن کی دلدل میں دھنسی نظر آرہی ہے تو عوام سابق حکمرانوں پر عائد کئے جانیوالے حکومتی الزامات پر کیونکر یقین کرینگے جبکہ عوام بذات خود حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے ہاتھوں راندۂ درگاہ ہو کر قعرِمذلت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سے تو بادی النظر میں حکومت کے جاری ترقیاتی منصوبوں کی شفافیت پر بھی سوال اٹھ سکتے ہیں۔ اس معاملہ میں لاہور ہائیکورٹ کا گزشتہ روز کا فیصلہ بھی چشم کشا ہے جس کے تحت موجودہ حکومت کے راوی اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کو غیرقانونی اور کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ اب اپوزیشن کو لامحالہ حکومت کے دوسرے منصوبوں کے بارے میں بھی انگلیاں اٹھانے اور حکومت مخالف تحریک کیلئے عوام کو متحرک کرنے کا موقع ملے گا جس کیلئے وہ پہلے ہی منصوبہ بندی کرچکی ہے۔ اگر حکومت کی گورننس بھی کمزور ہے اور بقول وزیراعظم ملک میں قانون و انصاف کی حکمرانی کا تصور بھی ماند پڑ چکا ہے اور حکومت مختلف مافیاز کے آگے بے بس نظر آتی ہے تو اس سے اصلاح احوال کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کی بھی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ حکومت کو اب اپنے معاملات پر بہرحال نظرثانی کرنا چاہیے اور ہر گند کا سارا ملبہ سابق حکمرانوں پر ڈالنے کی پالیسی سے رجوع کرکے اپنی صفوں میں بھی جھاڑو پھیرنا چاہیے۔ موجودہ صورتحال میں تو پی ٹی آئی قیادت کیلئے اقتدار کے نئے مینڈیٹ کی خاطر عوام کے پاس جانا بھی مشکل ہو جائیگا۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...