کورونا وائرس کی نئی شکل اومیکرون پاکستان میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ شہروں کے حساب سے دیکھا جائے تو اس کے پھیلاؤ کی سب سے زیادہ شرح کراچی میں نوٹ کی جارہی ہے۔ اس وبا اور اس کے اثرات پر نظر رکھنے والے ماہرین اور ادارے بتا تو یہ رہے ہیں کہ اومیکرون اپنے سے پہلے سامنے آنے والی شکلوں کی نسبت کم مہلک ہے لیکن پھر بھی ہلاکت خیزی کا عنصر اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے دنیا کے باقی ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی کئی افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ حکومت اس پر قابو پانے کے لیے کوششیں تو کررہی ہے لیکن عوام کے بھرپور تعاون کے بغیر ایسی کسی بھی شے پر قابو پانا ممکن نہیں ہوسکتا۔ وبا کے پھیلاؤ پر قابو پانے میں سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز یا ایس او پیز (حفاظتی تدابیر) پر عمل درآمد سب سے اہم کردار ادا کرسکتا ہے، اور وبا کے مضر اثرات کو روکنے یا اسکی ہلاکت خیزی کو کم کرنے کے لیے ویکسین ایک مؤثر ہتھیار ہے۔ اسی لیے دنیا بھر میں حکومتیں اور ادارے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ہر شخص ویکسین لگوائے تاکہ اس کا مدافعتی نظام اس وبا کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکے اور اگر وہ کسی بھی ذریعے سے اس وبا کی زد میں آ جاتا ہے تو اس کی جان کو کوئی خطرہ نہ ہو۔
یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے کہ دنیا بھر میں جتنا زور ویکسین لگوانے پر دیا جارہا ہے اسی شد و مد سے اس کی مخالفت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پاکستان اور اس جیسے دیگر ترقی پذیر ملکوں کو تو یار لوگ یہ طعنہ دے سکتے ہیں کہ وہاں تعلیم اور شعور کی کمی کے باعث لوگوں کو ویکسین کی اہمیت کا اندازہ نہیں اور وہ سازشی تھیوریوں کا شکار ہو کر ویکسین لگوانے سے انکار کررہے ہیں لیکن مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کے ان باشندوں سے متعلق کیا کہا جائے گا جو تعلیم و شعور کی حاملیت کے ان تمام پیمانوں پر پورے اترتے ہیں جو جدید زمانے کے مشرقی دانشوروں نے طے کررکھے ہیں؟ پاکستان میں تو لوگ جعلی سرٹیفیکیٹ بنوا کر، نجی محفلوں میں یا سماجی رابطے کے ذرائع سے ویکسین کے خلاف اپنا ردعمل محض زبانی کلامی ظاہر کرتے ہیں لیکن یورپ میں اس حوالے سے احتجاج کا ایک باقاعدہ سلسلہ جاری ہے جس میں لوگ بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر یہ اعلان کررہے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ ویکسین نہیں لگوائیں گے۔ اس سلسلے میں بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں ہونے والا احتجاج حوالہ دینے کے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ وہاں لاکھوں لوگوں نے صرف احتجاج ہی نہیں کیا بلکہ پولیس پر آتشیں گولے بھی پھینکے جن کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔احتجاج کی اسی طرح کی صورتحال نیدرلینڈز (ہالینڈ)، کروشیا، آسٹریا، اٹلی، جرمنی اور فرانس میں بھی دکھائی دی۔
ویکسین کے خلاف یورپ کے مختلف ملکوں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں پلے کارڈز پر جو نعرے درج تھے ان میں لازمی ویکسین لگوانے کی شرط کو انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہاگیا کہ یہ شرط انسانی جسم پر شخصی اختیار کو ختم کرنے کے مترادف ہے جسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسقاطِ حمل، صنفی تمیز کے بغیر جنسی میلان، لباس سے بے نیازی ، عقد کے باوجود اپنی زوج کے ساتھ جنسی تعلق کے لیے باقاعدہ اجازت اور مذاہب کے اصولوں کی ضد پر مبنی اسی نوع کے ہر عمل کو بنیادی انسانی حقوق قرار دینے اور دنیا بھر میں ان باتوں کے پرچار کے لیے مختلف خطوں اور ملکوں کے مقامی باشندوں کو خرید کر سہولیات اور تحفظ دینے والے ویکسین لگوانے یا نہ لگوانے کے انتخاب کو انسانی حق تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ حد یہ ہے کہ امریکی ریاست میساچوسٹس کے دارالحکومت بوسٹن میں ایک ہسپتال نے دل کے عارضے میں مبتلا ایک شخص کے ہارٹ ٹرانسپلانٹ سے اس بنیاد پر انکار کردیا کہ مریض کووِڈ ویکسین لگوانے پر آمادہ نہیں۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ مغرب میں ویکسین لگوانے سے انکار کرنے والے سارے عام لوگ نہیں ہیں بلکہ طب کی مختلف شاخوں سے جڑے ہوئے کئی پیشہ وروں اور ماہرین نے بھی ویکسین لگوانے سے انکار کیا۔
مغرب میں ایسا پہلی بار نہیں ہورہا کہ حکومتیں اور ادارے ایک شے عوام پر مسلط کرنا چاہ رہے ہیں اور عوام اس کے جواب میں شدید ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔ یقینا یہ عوام کے باشعور ہونے کی دلیل تو ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ صورتحال اس جانب اشارہ بھی کررہی ہے کہ سرمایہ داریت کی چھتر چھایا میں جب مذہب سمیت ہر بندھے ٹکے نظریے سے آزاد ہونے یا لبرلزم کو اکسیر کا درجہ دے کر ہر درد کی دوا قرار دیا گیا تو پھر یہ طے تھا کہ آج نہیں تو کل معاملات یہی رخ اختیار کریں گے۔ مذہب تو پھر بھی انسان کو کسی حد تک اختیار کی آزادی دیتا ہے لیکن سرمایہ داریت کا بنیادی تقاضا ہی یہ ہے کہ اپنے تمام افکار و نظریات اور اختیارات و اعمال کی باگ ڈور سرمایہ دارانہ نظام یا اس کے کسی ترجمان کے ہاتھ میں دیجیے اور پھر پنجرے میں قید جانوروں کی طرح ایک خاص دائرے کے اندر گھومنے پھرنے کی آزادی حاصل کر لیجیے۔
ممکن ہے کووِڈ ویکسین کے خلاف جو کچھ کہا جارہا ہے وہ محض سازشی تھیوری سے بڑھ کر کچھ بھی نہ ہو لیکن دنیا کے کسی بھی ملک میں عوام کو اس بات کا احساس زور زبردستی سے تو ہرگز نہیں دلایا جاسکتا۔ اگر ویکسینیشن کارڈ کو پاسپورٹ کا درجہ دے کر اس کے ذریعے لوگوں پر پابندیاں لگاتے ہوئے زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج مزید ناخوشگوار ہوں گے کیونکہ اس سے عوام کے تعصبات اور تحفظات مزید پختہ ہو جائیں گے۔ اس سلسلے میں یہ حکومتوں اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ طبی اور وبائی امراض کے ماہرین کے ذریعے عوام کے شکوک و شبہات دور کریں اور ویکسین سے متعلق لوگوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے وہ تمام اقدامات کریں جو قبل ازیں پولیو، خسرہ اور ایسی ہی دیگر بیماریوں کی ویکسینز کے ضمن میں کیے گئے۔ وبا کے پھیلاؤ اور اس کی ہلاکت خیزی پر قابو پانا یقینا ضروری ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ لوگ اس وبا اور اس کے اثرات کو قابو کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی ویکسین کو کسی بڑی سازش کا حصہ نہ سمجھیں۔
کووِڈ ویکسین ضروری ہے مگر۔۔۔
Jan 27, 2022