وقت کا پہیہ اتنی تیزی سے گھوم رہا ہے اور اسی نسبتاََ سے حالات ووقعات کا تسلسل بھی کہ بعض اوقات لکھنے کے لئے موضوع کا انتخاب مشکل ہوجاتا ہے ۔ ملک میں صدارتی نظام کا شوشہ ہے ،پی ایس ایل شروع ہونے والی ہے ،پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی الگ الگ " دما دم مست قلندر" کی تیاریوں میں ہیں اور وزیراعظم نے "اگر مجھے نکالا" کی صدا بھی لگا دی ہے !!میں وزیراعظم کے بیان " اگر میں حکومت سے نکلا تو ۔" پر لکھنے کا اردہ رکھتا تھا لیکن یک دم ہر طرف سے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کا شور سنائی دینے لگا ۔
تین روز قبل ہی مشیر احتساب شہزاد اکبر کے استعفیٰ نے حکومت کے "احتسابی بیانیے " کو زک پہنچائی اور اب ٹرانسپرنسی رپورٹ نے "کرپشن کیخلاف جنگ " کے سلوگن پربھی اچھی خاصی ضرب لگا دی ہے ۔اپوزیشن نے ان دونوں ڈیویلپمنٹس کوبہت کامیابی سے اپنے حق میں استعمال کیا ہے ۔ ویسے بھی سیاست میں ساری بات "پرسیپشن " کی ہوتی ہے ،حقیقت بھلے کچھ بھی ہو ،جو پرسیپشن ڈیویلپمنٹ کا فن جتنا بہتر جانتا ہے وہی کامیاب ٹھہرتا ہے ۔ "ٹرانسپرنسی انٹرنیشل" کرپشن کے حوالے جو سالانہ رپورٹ جاری کرتی ہے ،اسکا نام بھی انھوں نے کرپشن پرسیپشن انڈکس (Corruption Perception Index) رکھا ہوا ہے ۔ اس رپورٹ کو حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی "پرسیپشن بلڈنگ " کے لئے استعمال کرتی ہے ۔
تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان شفافیت اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے دنیا کے 180 ممالک میں 140ویں نمبر پر آگیا ہے ،یعنی 139 ممالک ہم سیشفافیت اور قانون کی حکمرانی میں بہتر ہیں ۔ گزشتہ برس پاکستان کی رینکنگ 124 تھی جو اب 16درجے اوپر چلی گئی ہے ۔ اسکا سیدھا مطلب تو یہی ہے کہ ہماریہاں رشوت ،بدعنوانی اور سرکاری عہدیداروں کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال میں اضافہ ہوا ہے ۔ہم اپنے معاشرے کو دیکھیں تو یہ بات کوئی حیران کن بھی نہیں لگتی البتہ یہ بات بھی اپنی جگہ غور طلب ہے کہ کیا "عطیہ " سے چلنی والی تنظیم کی رپورٹ مستنداور کسی اثر و رسوخ سے آزاد ہوسکتی ہے ؟ پاکستان میں رجسٹرڈ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اپنی ویب سائٹ پر خود کو بطور ٹرسٹ ظاہر کیا ہوا ہے ،تنظیم کے معاملات بورڈ آف ٹرسٹی کے ذریعے چلائے جاتے ہیں جب کہ ویب سائٹ پر چندے کی اپیل بھی موجود ہے ۔ لہذا اس بات کی کیا گرانٹی ہے کہ جو ممالک ،ادارے یا شخصیات اس ادارے کو فنڈز دیتے ہیں ،وہ رپورٹ کی تیاری میں اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کرتے ہونگے ؟ رپورٹ کی تیاری ہر ملک کا مقامی چیپٹر کرتا ہے جب کہ عالمی بنک اور ورلڈ اکنامک فورم کا ڈیٹا بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ بات کسے نہیں معلوم کہ ورلڈ بنک ہو یا ایف اے ٹی ایف جیسے ادارے ،عالمی استعماری قوتیں ان اداروں کو تیسری دنیا کے ممالک کی "ناپسندیدہ" حکومتوں کو دبائو میں لانے کے لئے استعمال کرتی ہیں ۔ پاکستان سے متعلق "ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل " کی 1996ئ سے 2021ء تک کی رپورٹس کا جائزہ لیا جائے تو کچھ حیران کن انکشافات ہوتے ہیں ۔ مثلاء 2012ء میں پیپلز پارٹی کے دور اقتدار کے آخری سال پاکستان انڈکس میں 139ویں نمبر پر تھا اور 2013 میں ن لیگ کو اقتدار ملتے ہی پاکستان کی رینکنگ ایکدم 12درجے کم ہوکر 127 تک آگئی !! یہی نہیں اس سے اگلے برس 126 اور پھر 117 پر پہنچ کر اگلے چار برس برقرار بھی رہی!! جب کہ اس دوران پانامہ لیکس جیسے بڑے سکینڈل بھی آئے اور کرپشن کے حوالے سے عام رائے یہ تھی کہ بہت لوٹ مار ہوئی۔
جیسے ہی ن لیگ اقتدار سے الگ ہوتی ہے تو جیسے ڈالر کی طرح اس ریکنگ کو بھی پھر سے پر لگ جاتے ہیں ، 2019ئ میں تین درجے بڑھ کر 120 پر پہنچنے والی رینکنگ 2020 میں 124 اور 2021ئ میں 16 درجے کی بڑی چھلانگ لگا کر 140 تک جا پہنچتی ہے ۔ کیا یہ محض اتفاق ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اسحاق ڈار صاحب نے ڈالر قابو میں رکھنے والا کوئی فارمولہ ادھر بھی لگا رکھا ہو؟
یہ اعداد وشمار دیکھیں تو دو باتیں سمجھ آتی ہیں ،پہلی یہ کہ یا تو سابق حکمران واقعی بہت ایماندار ہیں،پانامہ لیکس ،لندن فلیٹس ،منی لانڈنگ اور ٹی ٹیز والے قصے جھوٹ ہیں یا پھر وہ اس طرح کی این جی اوز اور آئی این جی اوز کو بھی کامیابی سے مینج کرلیتے ہیں ۔اگر دوسری بات درست ہے تو پھر یہی وہ " سیسلئن مافیا " ہے جو انٹرنیشنل این جی اوز اور عالمی مالیاتی اداروں تک اپنا نیٹ ورک بنائے ہوئے ہے اور اپنے خلاف آنے والی خبر کو خبربننے سے قبل ہی مینج کرنے کا فن جانتا ہے ۔پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی والے اس فن سے بالعموم عاری ہیں ،یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے باوجود ن لیگ کی قیادت کا گراف عوامی مقبولیت کے لحاظ سے ایک حد سے ذیادہ نہیں گرتا اور یہ نہایت کامیابی کیساتھ عوام میں اپنی اچھی "پرسیپشن" برقرار رکھتے ہیں ۔ اس کے لیے پیسہ ،لالچ ،دبائو اور بلیک میلنگ جیسے جتنے حربے بھی استعمال کرنے پڑتے ہیں گر گزرتے ہیں ۔ یہاں جو بھی جماعت برسر اقتدار آتی ہے ، وہ ایسے حربوں سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے بہت کم عرصے میں ہی مقبولیت کھو بیٹھتی ہے ۔
ٹرانسپرنسی رپورٹ، ایک پہلو یہ بھی ہے
Jan 27, 2022