اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی فہرست میں پاکستان کی تنزلی سمجھ سے بالاتر ہے ،اکانومسٹ کی انٹیلی جنس یونٹ نے پچھلا سکور37 دیا تھا جس کو کسی جواز کے بغیر20 کردیا گیاہے۔ ہو سکتا ہے کہ اگلے دو تین ماہ تک قیمتیں نیچے نہ آئیں، پاکستان کی درخواست پرانتظامی بورڈ کا اجلاس ملتوی ہواہے، سینیٹ سے سٹیٹ بینک ترمیمی بل چند دنوں میں منظورہوجائیگا،ہمارا لیڈرعمران خان ہے، تین سالوں کی حکمرانی قوم کے سامنے ہیں ، ان کا موازنہ پچھے 10 برسوں میں آنے والے حکمرانوں سے کرنا چاہیے، وزیراعظم عمران خان خود قانون کی حکمرانی کیلئے جدوجہدکررہے ہیں َوزیر خزانہ نے ان خیالات کا اظہار گذشتہ روز پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کیا َ۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ حکومت نے 4 مختلف بحرانوں کا بہترین انداز میں سامنا کیا، ملکی معیشت اب درست سمت میں جارہی ہے، ہر شعبے میں آمدن بھی بڑھ رہی ہے لیکن ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی فہرست میں پاکستان کی تنزلی سمجھ سے بالاتر ہے۔اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ شکوت ترین نے کہا کہ موجودہ حکومت نے 4 مختلف قسم کے بحران کا سامنا کیا، پہلا مسئلہ حکومت سنبھالتے ہی 20 ارب کے کرنٹ اکاونٹ خسارے کا تھا ۔ آئی ایم ایف نے سخت شرائط کے ساتھ ہمیں ڈیل کیا، جس کی وجہ سے ہمیں ڈسکاونٹ ریٹ کو بڑھانا پڑا، کرنسی قدر کم کرنی پڑی، اس سے گروتھ ریٹ 5.8 فیصد سے گر کر 3 فیصد پر آگئی، نیتجے میں مہنگائی بڑھی اور گروتھ بھی 2 سے ڈھائی فیصد سست ہوگئی۔ دوسرا بڑا مسئلہ کرونا آگیا، انہوں نے کہا کہ کرونا کو جس انداز میں حکومت پاکستان نے ہینڈل کیا اس کی تعریف معاشی ماہرین نے بھی کی، آج برطانوی ویزراعظم بھی وہی بات کر رہے ہیں جو اس وقت وزیراعظم عمران خان نے کی تھی۔ حکمت عملی سے ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ سال 2020-21 میں شرح نمو 5.37 فیصد ہوگئی۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ تیسرا مسئلہ کموڈوٹی پرائس سائیکل کا تھا جو 20 سال کی بلند ترین سطح پر آیا، قیمتیں 85 سے 90 فیصد تک بڑھیں، کئی چیزوں کی قیمتیں دگنی سے بھی زیادہ بڑھ گئیں۔ اس صورت حال سے ہم پر مہنگائی کا دباؤ بڑھا، نتیجتاً ہمارا تجارتی خسارہ بھی بڑھا لیکن اس دوران ہماری برآمدات، ریمٹنسز اور آئی ٹی ایکسپورٹس بھی بڑھیں۔ لیکن ہمارے ریزرو کم نہیں ہوئے۔ چوتھا مسئلہ افغانستان کی صورت حال تھی، امریکا نے افغانستان کے اثاثے منجمد کیے تو افغانستان کا انحصار پاکستان پر بڑھ گیا، افغانستان نے ہماری مارکیٹ سے ڈالر اٹھانا شروع کردیے اور اسی سے درآمد اور برآمد کرنے لگے، نوبت 2 کروڑ ڈالر یومیہ تک پہنچ گئی تھی۔ اس طرح ہم اس صورت حال کو ہینڈل کرنے میں بھی کامیاب رہے، اب ہم افغانستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کرنے کا بھی سوچ رہے ہیں تاکہ ہم پر بھی ڈالر کا پریشر کم ہو۔ گروتھ ہورہی ہے، سٹیٹ بینک ساڑھے 4 سے 5 فیصد تک جانے کا تجزیہ کر رہا ہے، مجھے اس سے بھی زیادہ کی امید ہے کیونکہ ایف بی آر کے ریونیوز بھی بڑھ رہے ہیں جو کہ پچلھے سال سے 32 سے 33 فیصد زیادہ ہوچکے ہیں، بجلی کا استعمال 13 فیصد بڑھ گیا ہے، بمپر کراپس بھی پچھلے سال سے بہتر ہیں، ریمٹنسز اور ایکسپورٹ بھی بڑھ رہی ہے۔ پہلے ایسکپورٹس ماہانہ 2 ارب ڈالر تک ہوتی تھیں، اب تقریباً 3 ارب ڈالر ماہانہ ہورہی ہیں، اندازہ ہے 31 ارب ڈالر کی گڈز ایکسپورٹ اور ساڑھے 3 ارب ڈالر کی آئی ٹی ایکسپورٹ سے ہم ٹریک پر آجائیں گے۔ 2019 سے ہم نے اسٹیٹ بینک سے کوئی مالی مدد نہیں لی، 1.5 ٹریلین سٹیٹ بینک کو واپس کیا۔ شوکت ترین نے کہا کہ تنخوادہ دار طبقہ واقعی اس وقت تکلیف میں ہے، ان کا کہنا تھا کہ اگلے چند دنوں میں ہم خصوصاً تنخواہ دار طبقے کے لیے پروگرام لے کر آرہے ہیں جس سے ان کی آمدن میں بھی اضافہ ہوگا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ مہنگائی کا عالمی دباوٗ کب کم ہوگا کیونکہ یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے، ہوسکتاہے اگلے 2 سے 3 مہینوں میں بھی صورتحال یہی رہے، کوشش ہے ہمارے تمام طبقوں کی آمدن بڑھائیں۔انہوں نے کہا کہ آج اس پریس کانفرنس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ہماری معیشت صحیح سمت میں جارہی ہے، اور تمام چیلنجز کو ہم کس انداز میں ہینڈل کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ٹرانسپرنسی انٹرنینشل رپورٹ میں کرپشن اور رول آف لا کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سب کے سامنے ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے تین برسوں میں کتنی کرپشن کرلی، کتنے ارب کا بزنس کرلیا، اور کتنی فیصد ان کی نان ٹیکس انکم بڑھی ہے، اس کا موازنہ پچھلے 10 برسوں سے کریں تو سب واضح ہوجائے گا۔ قانون کی بالادستی کی بات کریں تو وزیر اعظم ہمیشہ یہی کہتے رہے ہیں کہ پاکستان میں امیر اور غریب کے لیے علیحدہ قانون ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سب کے باوجود سمجھ نہیں آتی کے 3 برسوں میں ٹراسپرنسی انٹرنیشنل کی فہرست میں پاکستان کی تنزلی کیوں ہوئی؟جب تفصیلات آئیں گی تو ہم اس پر بات کریں گے۔وزیراعظم کی تنخواہ بڑھنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ دو ارب کا فرق آتا تو سمجھ بھی آتا، محض دو سے تین کروڑ تنخواہ بڑھنے پر وزیراعظم پر کرپشن کا الزام لگانا سمجھ سے باہر ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک کو درپیش مسائل پر قابو پانے کے لیے آبادی کو بھی کنٹرول کرنا پڑے گا، ان کا کہنا تھا کہ درآمدت اور برآمدات کے درمیان فرق کم کرنا بڑا ضرروی ہے، اسی فرق کی وجہ سے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ پچھلے سال آئی ٹی ایکسپورٹ 2 ارب تھی، اس سے مزید بڑھائیں تو امید ہے اگلے سال یہ 50 ارب تک پہنچ جائے گی۔ زراعت اور انڈسٹریز کی پیداوار بڑھانی ہوگی، انڈسٹریز بھی فیملی بزنس ہونے کی وجہ سے زوال کا شکار ہوتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً 3 ارب ڈالر کی ایکسپورٹس کرنے والے فری لانسرز واقعی تنگ ہیں، ہمیں ان کو سہولتیں دینا ہوں گی، آئندہ چند دنوں میں فری لانسرز کے دیگر مسائل بھی خود بیٹھ کر حل کروں گا۔