حکومت کو بتانا ہوگا دارالحکومت میں 125 یوسیز کیوں ہیں: اسلام آباد ہائیکورٹ


اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق ‘ جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل ڈویژن بنچ میں زیر سماعت وفاقی دارالحکومت کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق سنگل بنچ کے فیصلہ کے خلاف وفاق، الیکشن کمشن وغیرہ کی انٹراکورٹ اپیلوں میں الیکشن کمشن سے تفصیلی جواب اور فریقین وکلاء سے دلائل طلب کر لیے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے کہاکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سپریم کورٹ میں مصروف ہیں، اٹارنی جنرل آفس خالی ہے اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل سپریم کورٹ کیسسز کو دیکھ رہے ہیں۔ استدعا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان کی مصروفیت کی وجہ سے سماعت ملتوی کی جائے، جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ آپ ایسے نہ کریں، اگر ملتوی کرنا ہے تو میں 2031ء تک ملتوی کرتا ہوں جب میری ریٹائرمنٹ ہے، یہ ایک دن میں مکمل ہونا ہے یا نہیں یہ معلوم نہیں، الیکشن کمشن نے بھی عدالتی فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کر رکھی ہے۔ میں الیکشن کمشن سے کہتا ہوں کہ وہ پہلے دلائل دے دیں، وکیل الیکشن کمشن نے کہاکہ میں اس کیس کے حوالے سے مختصر حقائق بیان کرنا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جب تک پارلیمنٹ سے بل پاس ہوکر ایکٹ نہیں بنے گا اسے قانون نہیں بل کہا جائے گا، آپ کی درخواست تھی کہ جو حکم آیا الیکشن کروانے کا اس کے مطابق وقت کم تھا؟، کیا الیکشن کمشن نے وفاقی حکومت سے پوچھا کہ ایک دم 101 سے 125 یونین کونسلز کیوں کیں؟۔ وفاقی حکومت نے کیا بتایا ہے کہ 101 یونین کونسلز سے 125 یونین کونسلز کیوں کی ہیں، وفاق کو بتانا تو ہوگا کہ 125 یونین کونسلز کیوں کی گئیں۔ ایک دم آبادی کیسے زیادہ ہوگئی کہ یونین کونسلز بڑھا دی گئیں۔ کیا ہم پھر پارلیمنٹ سے بل پاس ہونے کا انتظار کریں؟، کیا عدالت کا کام ہے الیکشن کروانا یا نہ کروانا؟، وقت کی قلت کا ہم کہ سکتے ہیں کہ بہت کم تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ 101 یونین کونسلز سے 125 کیوں کی گئیں۔ تین مہینے میں ایسا کیا ہو گیا کہ یونین کونسلز بڑھائی گئیں۔ یہ فرسٹ امپریشن کا کیس ہے، یہ پہلی دفعہ ہی ہوگا کہ کیا لوکل ایریا ہے، کیا تعریف ہے۔ سماعت اگلے بدھ تک کیلئے ملتوی کر دی۔

ای پیپر دی نیشن