فریب سود و زیاں …حیدر عباس کلیال
haiderabbasraja556@gmail.com
پاکستان نے مرحلہ وار آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے ان شرائط کے تحت اب گیس مزید مہنگی کی جائے گی پٹرولیم مصنوعات پہ لیوی کو بڑھایا جائے گا ڈالر پہ مصنوعی گرفت ختم کی جائے گی بلکہ اس حوالے سے ڈالر کا ریٹ بلیک مارکیٹ کے ریٹ کے برابر کر دیا گیا ہے اسی طرح مختلف شعبوں کو دی جانے والی سبسڈی بھی مرحلہ وار ختم کی جانے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے اب بظاہر تو قرضہ نہ ملنے کی کوئی وجہ نہیں بچی نظر یہی آتا ہے اگلے جائزے کے بعد آئی ایم ایف کی قسط جاری ہو جائے گی اس سے جنوری 2023 کے اوائل میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ہونے نقصانات اور ان کے ازالے کے متعلق جنیوا میں پاکستان اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے مشترکہ طور پر ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں دوست ممالک اور مخیر اداروں سے منسلک شخصیات نے شرکت کی اس کانفرنس میں بھی پاکستان کو توقع سے زیادہ کامیابی ملی وزیراعظم نے آٹھ ملین ڈالر کی امداد کی اپیل کی تھی جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے لامحدود کی اپیل کی اس کانفرنس میں نو ملین ڈالر کے لگ بھگ رقم کا اعلان ہوا۔ پاکستانی معیشت کو جنیوا کانفرنس سے ملنے والی رقم سے وقتی طور پر کچھ سہارا مل گیا ہے اس کے ساتھ دوست ملک سعودی عرب نے بھی امداد کا وعدہ کر دیا ہے تاہم تاریخ میں شاید پہلی بار یا کم از کم طویل مدت بعد اس امداد کو چند شرائط سے مشروط کر دیا گیا ہے قبل ازیں سعودی امداد غیر مشروط پہ ملتی رہی ہے بہرحال حال مشروط ہی سہی لیکن یہ امداد معیشت کی سانس بحال کرنے میں معاون ثابت ہو گی اعداد و شمار کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ فوری ڈیفالٹ کا خطرہ سردست ٹل گیا ہے لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ جز وقتی جگاڑ کسی طور دیرپا ثابت نہیں ہوگا کیونکہ بروقت اقدامات نہ ہونے کی صورت میں امداد و قرض کی صورت میں حاصل ہونے والا یہ زر مبادلہ انتہائی تیزی سے ملک سے مختلف ادائیگیوں کی مد میں نکل جائے گا۔حکومت کو فوری طور کچھ سخت مالیاتی و انتظامی فیصلے کرنا ہوں گے اور یہ فیصلے اشرافیہ کے متعلق کرنا ہوں گے اور اشرافیہ کو بھی اس ملک کی بقائ کی خاطر اپنی اس بار قربانی دینا ہوگی۔بقائ کی اس جنگ میں سب سے پہلا قدم اعلی سرکاری عہدوں پہ براجمان افسران کی بیپناہ آسائشات کو کم کرنا ہونا چاہیے فوج عدلیہ دیگر انتظامی اداروں سیاستدانوں اور سول بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران کیلیے گاڑیوں کی درآمد فوری طور پر روک دی جائے اسی طرح مفت پٹرول غیر ضروری پروٹوکول غیر ملکی کثیر رقمی دورے محکمہ جاتی بیرونی کورسز وغیرہ کو سردست معطل کر دیا جائے۔ سرکاری و نجی دفاتر میں ہیٹر اور بعد ازاں ایسی کے استعمال پہ تاحکم ثانی پابندی عائد کی جانی چاہیے یہ ذہن میں رہے کہ حکومت کا کثیر زرمبادلہ توانائی کے حصول میں صرف ہوتا ہے اگر وسیع پیمانے پر ایندھن کی بچت کی جائے تو تقریباً تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں بدقسمتی سے آج تک کوئی ایسی پالیسی نہیں بن سکی کہ فیول (ایندھن) کے گھریلو صنعتی اور تجارتی کوٹے کا تعین کر سکے جس کے باعث اکثر اوقات گھریلو صارفین کی سہولت کیلیے صنعتی ضرورت کی توانائی کو کم کر دیا جاتا ہے جس سے پہلے سے دباؤ کا شکار صنعتی سیکٹر مزید مسائل کا شکار ہو جاتا ہے ایندھن کے بچاؤ کا ایک اھم ذریعہ ذاتی گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی ہے لیکن اس کیلیے پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک جدید خطوط پہ استوار انتہائی مربوط نظام ہونا ضروری ہے ذاتی گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی سے نہ صرف ایندھن کی مد میں بچت ہوگی بلکہ ان گاڑیوں اور ان کے سپئیر پارٹ پہ خرچ ہونے والے زرمبادلہ کی بھی بچت ہوگی۔ بعض قارئین کو حیرت ہوگی کہ ایندھن کے بعد ہمارے زرمبادلہ کا بڑا حصہ چائے سگریٹ اور کاسمیٹکس کی مد میں خرچ ہوتا ہے بال بال قرضے میں جھکڑے ملک کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ اس کا دوسرا بڑا خرچہ بنیادی ضروریات میں آتا ہی نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ اس جدید دور میں درج بالا سہولیات کے بغیر زندگی کا تصور آسان نہیں لیکن بقائ کی اس جنگ میں یہ قربانی لازم ہے کیونکہ ملک ہے تو سب رونقیں سب بہاریں ہیں یہ آسائشات تو حالات کی بہتری کے ساتھ ہی بآسانی مہیائ ہو جائیں گی کچھ وقت کیلیے اتنی سی قربانی کے بدلے ملک بچانا مہنگا سودا نہیں لیکن اگر آج یہ قربانی نہ دی تو شاید ملک ہی قربان کرنا پڑے(خدانخواسطہ). سخت فیصلوں کا وقت آن پہنچا ہے ہر کسی کو اپنے حصے کی آسائش کی قربانی دینا ہوگی خاص طور پر اس ملک کی اشرافیہ اور اعلیٰ طبقات کو۔ بدقسمتی سے اب تک جو بھی سخت فیصلے ہوئے ان سے براہ راست یا بلواسطہ عوام ہی متاثر ہوئے ہیں پٹرولیم مصنوعات، روزمرہ اشیائے ضروریہ یا اشیائے خوردونوش پہ ٹیکس بڑھانے سے ماضی میں مسئلہ حل ہوا ہے نہ ہی مستقبل میں ہوگا بلکہ اس سے عوام الناس مہنگائی کے خونریز صحرائی طوفان تلے مزید دبتے چلے جائیں گے اور بھوک و ننگ کا خون آشام درندہ انھیں نوچنے کیلیے سرشام ہی نوکیلے پنجوں کو تیز کیے منتظر ہوگا۔