Sadia Bashir26
چچا کے غلام ، ہمارے راجا
چچا سام ، انکل سام یا می لارڈ کتنے نام ہیں آپ کے !!! لاڈ سے کہیں یا مجبوری کے عالم میں ، مطلب آئی ایم ایف کا پنجرہ اور گروہ غلامان ہی بنتا ہے ۔ منٹو کے الفاظ میں " چچا جان یہ ببات تو آپ جیسے ہمہ دان عالم سے چھپی ہوئی نہیں ہونی چاہیے کہ جس پرندے کو پر کاٹ کر آزاد کیا جائے گا اس کی آزادی کیسی ہوگی۔ "مجھے بھی یہ سوال ہی پوچھنا ہے جو قریبا پچھتر سال قبل منٹو کے ذہن میں آیا تھا۔ منٹو لکھتا ہے۔
" سنا تھا کہ باپ سے زیادہ چچا بچوں سے پیار کرتا ہے، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے امریکہ میں ایسا نہیں ہوتا۔۔۔ مگر وہاں بہت سی ایسی باتیں نہیں ہوتیں جو یہاں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں آئے دن وزارتیں بدلتی ہیں۔ آپ کے یہاں ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہوتا۔ یہاں نبی پیدا ہوتے ہیں، وہاں نہیں ہوتے۔ یہاں ان کے ماننے والے وزیر خارجہ بنتے ہیں۔ اس پر ملک میں ہنگامے برپا ہوتے ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ ان ہنگاموں پر تحقیقاتی کمیشن بیٹھتی ہے۔ اس کے اوپر کوئی اور بیٹھ جاتا ہے۔ وہاں اس قسم کی کوئی دلچسپ بات نہیں ہوتی۔" آپ مائی باپ ہیں چچا جان۔۔ پلیز بتائیے ناں چچا سام کہ آپ کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے جس کے لیے سب تج کر ہم آپ کے قدم چومنے جا پہنچتے ہیں اور آشیر باد پاتے ہی واپس اپنے ملک میں وہ شر پھیلاتے ہیں جس سے کتوں کا سر بھی شرم سے جھک جائے۔ پٹہ آپ کا ہے سو جس گلی ، محلے ، شہر ، سوسائٹی اپنی عدالت لگا لیں۔ کون روک سکتا ہے۔کیونکہ آپ کی آشیرباد سے ہم اس ملک کے قانون کے پابند نہیں رہتے۔ اس ملک کا قانون اگر ہے، تو ہم سے کم بصارت اسے دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
بس یہ شکوہ ہے کہ جس قانون کے تحت آپ اپنی مہر لگاتے ہیں وہ قانون آپ کی حدود میں ہی کیوں ختم ہو جاتا ہے اور اس stamp میں ایسا کون سا زہر ہے جو ایشیائی ممالک اور خاص طور پر ہمارے ہاں پھیل جاتا ہے اور خوب دھواں دیتا ہے۔اتنا دھواں کہ ہمارے نسوں میں زہر بھر دیتا ہے۔چچا سام آپ بہت چالاک ہیں۔آپ نے کبھی وہ سپرے یا ویکسین نہیں دی جو پاگل۔۔۔۔۔۔ کو دی جا سکے۔
ہمارے پاس شعور کی وہ لہر بھی نہیں جو انسانوں اور جانوروں میں تمیز سکھا سکے۔سڑک پر قیمتی گاڑی کو بائیک کا پہیہ چھونے پر مار مار کر ہلکان کر دینے والے ، نشے میں دھت ہو کر قتل کرنے والے اور سکولز میں بچوں کے کان کاٹنے والے استاد ،چھوٹی بچی کی پسلیاں توڑنے والی لڑکیوں ،آفس میں بیٹھ کر کان بند کرنے والے پرنسپل ، رٹا سسٹم پروان چڑھانے والے تخلیق کاروں ، تعلیمی اداروں میں نفسیاتی مریضوں ، قبرستانوں میں ریپ کرنے والوں اور ایسے بے شمار افراد جنھیں پنجروں میں ہونا چاہیے۔ہم آزاد چھوڑ کر سیلیوٹ کرتے ہیں۔ اور انھیں انسان ہی پڑھتے اور لکھتے ہیں۔ چچا جان قرض کی مے نے ہمیں مدہوش کر رکھا ہے اتنا مدہوش کہ ہم خوش حالی کے خواب دیکھ دیکھ کر اندھے ہو چکے ہیں۔ہاتھی پاگل ہوتا ہے تو ہم اسے آبادی میں چھوڑ کر آپ کی طرف امداد طلب اور ملتجی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ مائی باپ !!!! اس پر آپ کے نام کا سٹیکر ہے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہم تو بے بس و لاچار ہیں۔ چاچا جی ! آپ خود تو سڑکوں پر تھوکنے پر فائن کرتے ہیں اور اپنی سٹیمپ لگا کر جنھیں واپس بھیجتے ہیں وہ لوگوں پہ تھوک تھوک کر انھیں کوڑا گھر ڈیکلیر کر دیتے ہیں۔کوئی پوچھنے والا تو درکنار دیکھنے والا بھی نہیں۔آپ کے چھوٹے ہمارے بڑے کیوں ہو جاتے ہیں۔پلیز اس کا کچھ سوچیے۔ آپ کے stamp یافتہ کچھ شاعر یہاں نثری غزلوں پہ داد وصول پاتے ہیں اور پ?ھر سے اڑ جاتے ہیں۔
آپ سچائی کو ادب کے لیے جائز قرار دے کر ہمارے سچ کو ذلت و کم مائیگی کی سولی پہ کیوں لٹکا دیتے ہیں۔ آپ کا حرام اور ممنوعات ہمارے لیے کیوں قابل تکریم ہیں۔ہمارے ہاں کتنے ہی دیسی ریمنڈ ڈیوس ہیں جو کل یگ کو نہیں مانتے۔ ہمارا تو شبیر بھی اپنی مرضی سے منظر منتخب کرتا ہے۔ ویسے نعرہ یہ ہی لگاتا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے لیکن ہم سب جھوٹے ہیں۔ اسی لیے اساتذہ کے لیے مار نہیں پیار کا نعرہ دے کر بچوں کو درندہ بننے کی تربیت دے رہے ہیں۔ لاکھ دو لاکھ جرمانہ بھرنے سے ہمارے کارخانے رواں رہتے ہیں تو فکر کاہے کی۔۔ نشہ سے چور مسکراتے درندے راج کر رہے ہیں۔چچا سام اس قرض کے ساتھ غیرت نہ سہی انسانیت ہی دے سکیں تو ہی ہم آپ کو سپر پاور کہیں گے۔ رہے نام اللہ کا