توہین قرآن اور مسلمان

Jan 27, 2023

محمد شعیب مرزا

آئینہ
توہین قرآن اور مسلمان
     محمد شعیب مرزا 
اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیے گئے گزشتہ تمام انبیاء کرام علیہ السلام کو نہ صرف نبی ماننے بلکہ ان کے ادب و احترام کی بھی تلقین کرتا ہے۔ اسی طرح اسلام دوسرے مذاہب، ان کی مذہبی کتابوں اوران کے مذہبی رہنماؤں کی توہین سے بھی منع کرتا ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ غیر مسلموں کی طرف سے ہر تھوڑے عرصے کے بعد شعائر اسلام، نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی توہین کر کے دنیا بھر کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ آزادی اظہار رائے کے نام پر کیا جاتا ہے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اپنی رائے کے اظہار میں آزادی دوسروں کی دل آزاری یا مقدس ہستیوں کی توہین کا نام نہیں ہے۔ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک خود کو انسانی مساوات، بنیادی انسانی حقوق کے علم بردار قرار دیتے ہیں لیکن مسلمانوں کے ساتھ ان کا رویہ غیر انسانی، غیر مذہبی اور غیر اخلاقی ہے۔ مسلمانوں کے مفادات اور جذبات کو نقصان و ٹھیس پہنچانے کیلئے یہ سب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اسلام اپنی حقانیت، احترام انسانیت اور ابدی افادیت کی وجہ سے دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ غیر مسلموں کے منفی پروپیگنڈے کے باوجود نہ صرف عام انسان بلکہ اہم شخصیات بھی تیزی سے اسلام قبول کر رہی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اسلامی تعلیمات و قرآن حکیم کا مطالعہ کر کے اور پوری تحقیق کر کے حلقہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ اسلام اس وقت دنیا کا دوسرا بڑا مذہب بن چکا ہے اور جس تیزی سے پھیل رہا ہے بہت جلد مسلمانوں کے تعداد دنیا کے کسی مذہب کے ماننے والوں سے زیادہ ہو جائے گی۔
 اس سے قبل مسلمان ایسے افسوسناک واقعات پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا چکے ہیں اورا قوام متحدہ و دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کر چکے ہیں کہ کسی بھی مذہب، اس کے شعائر اور مذہبی ہستیوں کی توہین اظہار رائے کی آزادی نہیں بلکہ انتہائی نامناسب فعل ہے۔ اس سے دنیا کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے، کیونکہ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، اہل بیت اطہارؑ، صحابہ کرامؓ اور قرآن مجید کی توہین برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی مسلمان ایسے واقعات پر مشتعل ہو کر کوئی انتہائی قدم اٹھاتا ہے تو اس کو جواز بنا کر مسلمانوں کو دہشت گرد اور شدت پسند قرار دے دیا جاتا ہے۔
دوسروں کو انسانی حقوق کے احترام کا درس دینے والی قومیں کیوں دوسروں کے مذہب کا احترام نہیں کرتیں؟ اظہار رائے کی آزادی کے دعویدار کیوں دوسروں کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا حق نہیں دیتے؟۔ ایسے افسوس ناک واقعات کی فہرست بڑی طویل ہے۔ حال ہی میں سویڈن میں ایک بدبخت راسمس پلوڈان نے ترکیہ کے سفارت خانے کے سامنے مظاہرے کے دوران اسلام اور مسلمانوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، بدزبانی کی اور قرآن مجید کو نذر آتش کیا۔ جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے اور پورے عالم اسلام میں اظہار مذمت اور احتجاج کیا جارہا ہے۔ ملعون راسمس پلوڈان سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ترکیہ کے سفارتخانے کے باہر احتجاجی مظاہروں کی اجازت دینے پر ترکیہ کے حکام نے شدید مذمت کی ہے اور احتجاجاً سویڈن کے وزیردفاع نے یہ کہہ کر اب اس ملاقات اورد ورے کی کوئی اہمیت نہیں ہے، 27 جنوری کو طے شدہ دورہ منسوخ کر دیا ہے۔
 دنیا بھر کی طرح پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقع کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اسلامو فوبیا کو فروغ دینے کی کارروائی سے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار نفرت انگیز عمل کی روک تھام کریں اور تشدد کی روک تھام کی ذمہ داری نبھائیں۔ اس افسوسناک واقعے کی حکومت، اپوزیشن، علماء کرام اور پاکستان کے ہر طبقے نے مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ آزادی اظہار کے لبادے کو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ 
ایسے واقعات کا تسلسل کے ساتھ ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ ہر بار اس طرح کے مواقع پر حکومتوں کی طرف سے زبانی احتجاج کیا جاتا ہے یا عوام کی طرف سے ہڑتالیں اور پُرتشدد مظاہرے کیے جاتے ہیں۔ ان واقعات پر شدید احتجاج ضروری ہے تاکہ غیر مسلموں کو اندازہ ہو سکے کہ مسلمانوں کی حمیت ابھی زندہ ہے، مگر ہم اپنے ہی ملک میں تشدد، ماردھاڑ اور قومی املاک کو نذر آتش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ہڑتالیں کرتے ہیں۔ یوں ہم اپنا ہی نقصان کر ڈالتے ہیں۔ پُرامن احتجاج ضرور ہونا چاہئے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ زبانی احتجاج یا مذمت کے بجائے پوری اُمت مسلمہ کو متحد اور یک زبان ہو کراس حوالے سے آواز اٹھانے اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کو اس حوالے سے خصوصی اقدامات اور تمام غیر مسلم ممالک کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے عملی قانون سازی پر مجبور کرنا چاہئے۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں خاص طور پر او آئی سی کو خصوصی اجلاس بلا کر نہ صرف اسلام بلکہ دنیا کے تمام مذاہب، مقدس ہستیوں اور آسمانی کتابوں کی توہین اور بے حرمتی پر سخت سزائیں مقرر کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے چارٹر میں شقیں شامل کروانی چاہئیں۔ لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کو اپنی عیاشیوں، بدعنوانیوں اور سیاست سے فرصت ملے تو وہ اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دیں۔

مزیدخبریں