جاب نمبرAV105(ملی)
’’خدا کے شیر دل بندے‘‘ سے چند اورق
عزیز قریشی
سید یعقوب شاہ آف پھالیہ شریف ستودہ صفات کی حامل شخصیت تھے وہ بیک وقت ایک شعلہ نوا مقرر، مدبر، اورمفکر تھے، بلکہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہونے کے ناطے ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے شعلہ نوا خطابات اور شیر کی سی گرجدار آواز سے یوں محسوس ہوتا تھاکہ واقعی کوئی جواں مرد بلاخوف و خطر حقیقت بیان کر رہا ہے۔ جیسا کہ حضرت علامہ اقبال نے اپنے شعر میں اس کا اظہار کیا ہے کہ خدا کے شیر بندوں کو حق بیان کرنے میں کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا۔ راقم الحروف نے بارہا مجالس اور اجتماعات میںخطاب سنا وہ آواز ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی کانوں میں گونج رہی ہے اور تازیست گونجتی رہے گی۔ علاقہ نواب صاحب رائیونڈ روڈ کے مضافات اس امر کے گواہ ہیں کہ شاہ صاحب مرحوم و مغفور کی تقاریر کی باز گشت آج بھی وہاںپائی جاتی ہے۔ مزید برآں شاہ صاحب مرحوم کی دوسری تقاریر کے علاوہ خاص کر واقعہ کربلا اس انداز میں بیان کرتے تھے جو کہ کم لوگوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ اس دل نشین اسلوب میں بیان کرتے تھے جو کہ سامعین پر سحر طاری کر دیتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ انسان نہیں بلکہ پرندے ہیں جو کہ بے حس و حرکت بیٹھے محو خیال ہیں اور پورے کا پورا دیہہ میں مکمل سناٹا رہتا۔ ان کی تقاریر کا سامعین پر ایسا اثر ہوا کہ ان کی زندگیوں میں بڑا ہی تغیر و تبدل دیکھا گیا۔ مزید یہ کہ ان کی زندگی سراپا تابع شریعت ہوگئی ، گو شاہ صاحب مرحوم اس دارفانی سے کوچ کر چکے ہیں لیکن یہ ایک ان مٹ حقیقت ہے کہ شاہ صاحب کی وہ یاد گار تقاریر اور شعلہ نوا خطابات کا اثر سامعین پر تادیر رہے گا ،جن کی آواز آج بھی علاقہ نواب صاحب کے مضافات کی فضائوں میں محسوس کی جاتی ر ہے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور و منور فرمائے اور اس کے درجات بلند فرمائے۔ یہ تھا ذکر خیر شاہ صاحب مرحوم کی زندگی کے پہلے پہلو کا جوکہ ان کی تحریر اور تقریری صلاحیتوں پر مشتمل ہے۔ شاہ صاحب مرحوم کی زیست کا دوسرا پہلو جو کہ خاک سار کی نظر میں انتہائی اہم قابل ذکر اور قابل تقلید ہے۔
زندگی بھر ان کی دلی خواہش رہی کہ اس ملک میں جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا نظام اسلامی کا نفاذ جتنی جلد ممکن ہو سکے ہو جائے لیکن ان کی شب و روز کی انتہائی جدوجہد کے باوجود ان کی زندگی میں ایسا نہ ہوا اور وہ اپنی یہ خواہش سینے میں ہی لیکر اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ان کی سعی و جدوجہد اور کوششیں جو کہ انہوں نے اس ملک میں نفاذ اسلام کے لیے آج تلک کی ہیں جو کہ قابل تقلید اور قابل رشک ہیں تاکہ اس ملک میں جلد سے جلد نفاذ اسلام ممکن ہو سکے۔ مزید برآں پیرو کاروں کیلئے ان کی اس سلسلہ میں تحریری کاوشیں قابل تقلید ہیں۔ انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اس ملک میں نفاذ اسلام کے لئے سخت جدوجہد کی ہے اور کئی کتب بھی تحریر کی ہیں جن میں پاکستان کے معاشی مسائل کا حل قابل ذکر ہے اس کتاب میں مرحوم نے اس ملک کے اس طبقے کی پریشانی کا حل پیش کیا ہے جو کہ نفاذ اسلام سے خائف ہیں۔ مگر اتنی سعی و کوشش کے باوجود یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ اس ملک میں طویل عرصہ گزرنے کے باوجود اسلام کا نفاذ نہ ہو سکا۔ علاوہ ازیں ان کے علاوہ دوسری بھی کئی قابل ذکر شخصیات نے انتہائی جدوجہد کی ہے لیکن باوجود اس کے آج تلک ہم اس منزل کو نہ پا سکے قیام پاکستان سے لیکر آج تک جتنے بھی حکمران گزرے ہیں ان کو اس ضمن میں اپنی بے اعتنائی کا جواب بارگاہ الٰہی میں پیش کرنا ہوگا۔ شاہ صاحب موصوف کو واقعتاً اسلام کا گہرا درد تھا ان کے قلب سلیم میں مسلمانوں کی زبوں حالی اور عدم نفاذ اسلام کا انتہائی قلق تھا۔
1977کی تحریک اسلامی بھی شاہ صاحب مرحوم کی خواہش کی ایک کڑی تھی لیکن افسوس وہ تحریک بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی اور اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی۔