حضرت مفتی عبدالکریم گمتھلوی

عبدالناصرترمذی 

پاک وہندمیں شایدہی کوئی ایسا خطہ اورگوشہ ہو گاجہاں حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی  کاعلمی وروحانی فیض نہ پہنچا ہو،جس طرح حضرت والاکی سینکڑوں تالیفات مختلف علوم میں علمی فیض پہنچارہی ہیں اسی طرح بہت سے خلفاء اورتربیت یافتہ حضرات فیض روحانی پہنچانے میں مصروف رہے۔ حضرت مفتی عبدالکریم گمتھلوی بھی حضرت تھانوی کے ان ہی خاص تربیت یافتہ حضرات میں سے تھے،جن پرانہیں مکمل اعتمادتھا۔ مفتی عبدالکریم گمتھلوی کی ولادت باسعادت 5؍محرم الحرام 1315ھ بمطابق جون 1897ء کومشرقی پنجاب کے ضلع کرنال میںہوئی۔آپ کے والدمحترم  حکیم محمد غوث صاحب دہلی کے مستند حاذق طبیب، نہایت متقی، دیندار اورنقشبندی بزرگ شاہ ابوالخیردہلوی سے بیعت تھے۔
آپ کے دادامولانا محمدعبداﷲ بڑے جیدعالم تھے،جنہوں نے خاندان شاہ ولی اللہ کے عظیم چشم وچراغ شاہ محمداسحاق محدث دہلوی  اور شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی سے کسبِ فیض کیا ۔آپ نے ضلع کرنال کے قصبہ گمتھلہ گڈھوہی میں قیام رکھا اور وہیں انتقال فرمایا۔مفتی عبدالکریم گمتھلوی نے ابتدائی تعلیم اپنے قصبہ میں حاصل کی،کچھ عرصہ تھانہ بھون کے مدرسہ میںبھی پڑھا، پھرمدرسہ مظاہر علوم سہارنپورمیں شیخ المحدثین مولاناخلیل احمد سہارنپوری اور دیگرعلماء کرام سے دورۂ حدیث پڑھ کرسندفراغت حاصل کی۔ حجۃ الاسلام حضرت نانوتوی  کے شاگرد رشید اورحضرت تھانوی کے استاد حضرت مولاناعبدالعلی  سے مدرسہ عبدالرب دہلی میں بعض کتبِ حدیث دوبارہ پڑھیں۔
 مختلف مدارس میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد، حکیم الامت حضرت تھانوی  نے آپ کو تھانہ بھون بلا لیا۔ یہاںآپ نے 1355ھ تک تدریس کے ساتھ افتاء اورتصنیف کاسلسلہ جاری رکھا،1345ھ سے 47ھ تک مولانا محمد الیاس کاندھلوی کے قائم کردہ مدرسہ معین الاسلام قصبہ نوح ضلع گڑگانوا ںتحصیل پلول میں آپ نے بطور صدرمدرس قیام فرمایا، پھر1357ھ میںمدینہ منورہ مدرسہ علوم شرعیہ میں بھی آپ نے آٹھ ماہ تک تدریس فرمائی۔
 1937ء میںآپ نے مدرسہ قدوسیہ اور پھر مدرسہ حقانیہ کے نام سے شاہ آبادضلع کرنال میںمدرسہ قائم فرمایا اور ہجرت تک اسی سے منسلک رہے ۔ 1944ء میں آپ بطورصدرمدرس وشیخ الحدیث مدرسہ قاسم العلوم بہاولنگر میںخدمات سرانجام دیتے رہے ۔
 آپ نے مولانا عبدالمجید بچھرایونی نے ساتھ مل کرفتنۂ ارتداد کے انسدادکے لیے میوات کے علاقہ میں بہت کام کیا، اڑھائی سال تک آپ تبلیغ فرماتے رہے، اوران ارتدادزدہ علاقوں میں تقریباً ایک سومدارس قائم کیے، ہزاروں لوگ جو نوراسلام سے محروم ہوکرکفرکی تاریکیوں میں داخل ہوچکے تھے آپ کی شبانہ روزکاوشوں اورجہدِ مسلسل کے نتیجہ میںدوبارہ مشرف بہ اسلام ہوئے، مولانا محمدالیاس کاندھلوی (بانی جماعتِ تبلیغ) بھی گاہ گاہ آپ کے ساتھ ہوتے تھے۔آپ ہی کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ تھاکہ پاکستان بننے کے بعد1949ء میں سب سے پہلے پنجاب اسمبلی نے ہی قانون وراثت میں شریعت کے مطابق تبدیلی کابل منظورکیا۔ جبریہ تعلیم کے خلاف آپ کی جدوجہد اور قربانی تاریخ کا ایک سنہری حصہ ہے، اسی طرح ’’قاضی مسلم بل‘‘ کے نام سے آ پ نے1941ء میں متحدہ ہندوستان کی اسمبلی میں آواز اٹھائی کہ مسلمانوں کے تنازعات میں فیصلہ کے لیے مسلم جج مقررکیے جائیں ۔
 آپ پر حکیم الامت حضرت تھانوی کوحددرجہ اعتماد تھا اس لیے بڑے بڑے اجتماعات میں خانقاہ کی طرف سے نمائندگی کے لیے آپ کوبھیجا جاتا۔ مئی 1945ء میں جب امارت شرعیہ کا قیام عمل میں لانے کے لیے سہارنپورمیں اجلاس ہواتواس میں آپ کی ہی سعی سے یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوا۔ہندوستان میں شرعی قاضی نہ ہونے کی و جہ سے مسلم خواتین کوجو دشواریاںپیش آتی تھیں ان کے شرعی حل کے لئے حکیم الامت  حضرت تھانوی نے کتاب’’الحیلۃالناجزۃللحلیلۃالعاجزۃ‘‘  مفتی محمدشفیع  اورآپ سے لکھوائی، آپ اس کی تالیف میں پیش پیش رہے۔یہ کتاب  1930 میںمکمل ہوئی اوراس کی تصنیف پرپانچ سال صرف ہوئے۔تمام ارباب دارالافتاء ان مسائل میں اسی کتاب سے رہنمائی حاصل کرتے اورفتویٰ لکھتے ہیں۔آپ کی مشہورزمانہ کتاب’’الفضائل والاحکام للشہوروالایام‘‘جس میں آپ نے بارہ مہینوںکے احکام بیان فرمائے۔ آپ نے خانقاہ تھانہ بھون میں قیام کے دوران حضرت تھانوی کی زیرسرپرستی جوفتاویٰ تحریر فرمائے وہ ’’تتمہ امدادالاحکام ‘‘ کے نام سے شائع ہوکر منظرعام پر آچکے ہیں۔مولانا اشرف علی تھانوی کی عظیم تفسیر ’’بیان القرآن ‘‘ کی نظرثانی میں بھی آپ شریک رہے اور’’بہشتی گوہر‘‘ کی تالیف جدید میں بھی آپ نے حصہ لیا۔اس کے علاوہ امدادالفتاویٰ،  بوادرالنوادر، الطرائف والظرائف میں بھی آپ کی متعدد تحریریں طبع ہوچکی ہیں ۔ آپ کو اپنے شیخ ومربی حضرت حکیم الامت تھانوی سے نہایت عقیدت تھی،وہ بھی آپ کواپنی اولادکی طرح سمجھتے ،اور 1361ھ 1940ء میں آپ کو مُجازِصحبت بھی قراردیا۔ آپ کے فرزندمفتی سیدعبدالشکورترمذی قدس سرہ (سابق رکن اسلامی نظریاتی کونسل )کے ہاتھوں  بننے والاجامعہ حقانیہ آج  سترسال سے دینی ،علمی،فقہی خدمات میں مصروف عمل ہے۔جنوری2001ء میںفقیہ العصر مفتی عبدالشکورترمذی کی وفات کے بعدسے خاندانِ ترمذی میں خدمت ِدین کایہ سلسلہ آج تک جاری وساری ہے۔ خدا تعالیٰ اس سنہری زنجیرکی طوالت میں اضافہ کرتے رہیں،آمین

ای پیپر دی نیشن