سویڈن میں قرآن پاک کی توہین سانحہ پر عالم اسلام سراپا احتجاج

 سویڈن میں توہین ِ قرآن۔۔۔سبب کیا ہے حل کیا ہے ؟ 
 ڈاکٹر حافظ مسعود اظہر 
یورپی ملک سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں قرآن مجید کی توہین کا واقعہ بے حد افسوسناک اور دلخراش ہے ۔ یہ واقعہ اگر ایک طرف یورپ کے اسلام دشمن عناصر کے تعصب کا مظہر ہے تو دوسری طرف  عالم اسلام کی غیرت ایمانی پر تازیانہ بھی ہے ۔ بظاہر اس واقعہ کا پس منظر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد یورپی ملک سویڈن اور فن لینڈ نیٹو کی رکنیت حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ان دونوں ممالک نے نیٹو کی رکنیت کے لیے2020ء سے باقاعدہ درخواست بھی دے رکھی ہے۔جبکہ ترکیہ نے نیٹو کے رکن ملک کے طور پر اپنا ویٹو پاور کاحق استعمال کرتے ہوئے اْن کی درخواست کو رکوا دیا ہے۔ اس اقدام کے بعد سے سویڈن میں ترکیہ کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔اس دوران سٹاک ہوم میں ترکیہ کے سفارت خانے کے سامنے ایک مظاہرے کااہتمام کیا گیا جس میں نہ صرف ترکیہ کے صدر طیب اردگان کے خلاف نعرے بازی کی گئی بلکہ اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی گئی۔۔۔۔ پھر بد بخت مظاہرین نے نعوذ باللہ قرآن مجید کا نسخہ بھی نذر آتش کردیا ۔
ترکیہ نے اگر سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو رکنیت کے خلاف ویٹو پاور استعمال کی ہے تو یہ کوئی کفر اسلام کا معرکہ نہ تھا اور نہ ہی ترکیہ نے یہ پاوراسلئے استعمال کی کہ سویڈن اور فن لینڈ غیر مسلم ملک ہیں لہذا انھیں نیٹو کا رکن نہ بننے دیا جائے اسلئے کہ نیٹو بذات خود مسلم ممالک کا اتحاد نہیں نہ ہی اس کا مقصد امت مسلمہ کے مفادات کا تحفظ ہے ۔نیٹو (نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن) کی تشکیل 1949 ء میں روس کے خلاف بطور سیاسی اور فوجی اتحاد کے طور پر کی گئی تھی۔
اگر چہ کچھ مسلم ممالک بھی نیٹو کے رکن ہیں تاہم نیٹو کے رکن زیادہ تر غیر مسلم ممالک ہیں ۔ نیٹو کا رکن بننے یا نہ بننے کا فیصلہ سیاسی اور عسکری مفادات کے پیش نظر کیا جاتا ہے ۔ اسی پس منظر میں ترکیہ نے سویڈن اور فن لینڈ کے نیٹو کے رکن بننے کی مخالفت کی ۔ ترکیہ نے یہ فیصلہ محض اپنے علاقائی ،سیاسی اور معاشی  مفادات کے تحت ہی کیا ہوگا لیکن سویڈن کے اسلام دشمن عناصر نے ترکیہ کے اس فیصلے کو اسلام کے ساتھ جوڑ تے ہوئے دیدہ دانستہ قرآن مجید کی توہین کا ارتکاب کیاہے  ۔ 
یہ بات معلوم ہے کہ دنیا کے تمام ممالک اپنے فیصلے علاقائی، سیاسی اور کاروباری مفادات کو مدنظر رکھ کرہی کرتے ہیں ۔ کہیں بھی ان فیصلوں کو مذہب کے ساتھ نہیں جوڑا جاتا ۔ تاہم یورپ جو کہ بظاہر رواداری اور مساوات کا علمبردار ہے اس کا معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ اس کی اسلام دشمنی چھپائے نہیں چھپتی بلکہ بیان وزبان سے عیاں ہے ۔ ترکیہ کے خالصتاََ سیاسی اور معاشی فیصلے کو بنیاد بنا کر پہلی مرتبہ قرآن مجید کی توہین نہیں کی گئی۔ 1914ء میں پہلی جنگ عظیم کے نام پر ملت اسلامیہ کے خلاف اس سے بھی ایک بڑی اور سنگین واردات ہوچکی ہے۔ جنگ عظیم اول کا آغاز ہنگری کے شہزادے اور اس کی اہلیہ کے قتل سے ہوا دونوں کو 28 جون 1914 کو اس وقت قاتلانہ حملے میں ہلاک کردیا گیا جب وہ بوسنیا ہرزیگووینا کے سرکاری دورے تھے، جس کے ایک ماہ بعد آسٹریا نے بوسنیا ہرزیگووینا کے خلاف باقاعدہ طبل جنگ بجا دیا اور آسٹریا کا ایک بڑا اتحادی جرمنی بھی اس جنگ میں کود پڑا ۔ اس کے بعد ایک ایسی جنگ کاآغاز ہوا جسے دنیا جنگ عظیم اول کے نام سے یاد کرتی ہے ۔لیکن تاریخ کے طالب علم کیلئے یہ سوال باعث حیرت وتعجب ہے کہ سربیا پر آسٹریا کے حملے کی سزا ملت اسلامیہ کو کیوں ملی؟ یورپ نے جنگ کے اختتام پر خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کیوں کر دیئے  ؟ اس کا جواب ایک ہی ہے کہ ہنگری کے شہزادے اور اس کی اہلیہ کا قتل ایک بہانہ تھا جبکہ خلافت عثمانیہ اصل نشانہ تھا ۔ 
سویڈن میں قرآن مجید کی توہین اور بے ادبی بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہے کہ ترکیہ بہانہ ہے قرآن مجید اصل نشانہ ہے ۔ اس سلسلہ میں دستیاب معلومات کا سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ترکیہ کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں نعوذ باللہ قرآن مجید کو نذر آتش کرنا کوئی اتفاقی یا جذباتی امر نہ تھا بلکہ یہ پہلے سے سوچا سمجھا منصوبہ تھا ۔ مظاہرین نے پہلے کہیں سے قرآن مجید حاصل کیا پھر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کتاب مقدس کو نذر آتش کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ۔ یہ جسارت دراصل اسی اسلام دشمن مذموم مہم کی کڑی ہے جس کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے ۔ 
2015ء فرانسیسی اخبار چارلی ایبڈو نے توہین آمیز خاکے شائع کیے، ڈنمارک کی انتہاپسند کی ہارڈ ڈیل تحریک کے رہنما راسموس پالوڈن نے پولیس کے پہرے میں قرآن پاک کو نذر آتش کیا ۔واضح رہے کہ راسموس پالوڈن ڈنمارک کا رکن پارلیمنٹ ہے اور اس کے پاس سویڈن کی بھی شہریت ہے ۔مطلب یہ ہے کہ سویڈن میں قرآن مجید کی توہین کرنے والوں کے ڈانڈے ڈنمارک کے اسلام دشمن اور متعصب عناصر سے بھی ملتے ہیں ۔ 
اب یہاں ایک سوال ہے کہ آخر یورپ کے یہ نام نہاد دانشور ایسا کیوں کررہے ہیں ؟ کبھی قرآن مجید کی توہین کرتے ہیں ، کبھی نعوذ باللہ رسول مقبول ؐ کے توہین آمیز خاکے بناتے ہیں ، کبھی حجاب کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے اور کبھی مساجد کے خلاف زبان طعن دراز کی جاتی ہے ۔ 
اس کی وجہ ، سبب اور جواب ایک ہی ہے کہ یورپ اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے سخت خوف زدہ ہے ، جس طرح سے اسلام یورپ میں تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے ، عیسائی حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں ، ان کے چرچ مساجد میں تبدیل ہورہے ہیں ، خاص کر خواتین تیزی کے ساتھ اسلام کے سایہ عاطفت میں پناہ لے رہی ہیں ۔ان حقائق نے یورپ کو خوف زدہ کردیا ہے ، وہ یہ بات جان چکے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں جب اسلام یورپ کو فتح کرلے گا ، وہاں اسلام کا جھنڈا لہرائے گا اور عیسائیت اپنے ہی گھر میں اجنبی بن کر رہ جائے گی ۔ 
امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید ایک زندہ معجزہ ہے اور اسلام ایک ابدی صداقت ہے ۔ قرآن مجید اور اسلام مٹنے کیلئے نہیں بلکہ دنیا کو راہ ہدایت پر لانے اور دنیا کو امن وامان کو گہوار بنانے کیلئے ہیں ۔ ساڑھے چودہ سال کے طویل عرصہ میں قرآن مجید اور اسلام کو مٹانے کیلئے بارہا کوششیں کی گئیں لیکن وقت کے ساتھ دنیا میں حلقہ بگوش اسلام ہونے اور قرآن مجید کو زندہ معجزہ تسلیم کرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھتی ہی چلی جارہی ہے ۔آسمان کے چہرے نے تاتاریوں سے بڑھ کر اسلام اور قرآن کا دشمن کسی کو نہیں پایا ۔ تاتاریوں نے خلافت عباسیہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔ قرآن مجید اور دینی کتاب اتنی بڑی تعداد میں دریائے دجلہ اور دریائے فرات میں بہائی گئیں کہ ان دو دریائوں کا پانی کالا ہوگیا تھا لیکن ہواکیا یہی تاتاری جو اسلام کو مٹانے کا عزم لے کر صحرائے گوبی سے اٹھے اور عالم اسلام کو اپنے پائوں سے روند ڈالا تھا ۔ایک وقت آیا جب یہی تاتاری اسلام کے محافظ اور کعبہ کے نگہبان بن گئے تھے ۔بہ قوم شاعر مشرق علامہ محمد اقبال 
 ہے عیاں فتنہ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
بات دراصل یہ ہے کہ اسلام اللہ کا دین ہے اور وہ ہر صورت اس کی حفاظت کرے گا چاہے وہ کسی بھی قوم کے ذریعے سے ہو۔ جب مسلمان عیش میں یاد خدا اور طیش میں خوف خدا بھلا بیٹھیں تو اللہ کسی اور قوم کو ہدایت دے دیتا ہے اور یوں بھی ہوتا ہے کہ بھٹکے ہوئے کہلانے والے لوگ اوروں کو راہ دکھانے لگتے اور قاتل مسیحا بن جاتے ہی۔  
ان حالات میں دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان کیا کررہے ہیں ۔ مسلمان ہاتھ پہ ہاتھ دہرے منتظر فردا ہیں۔  جب بھی یورپ میں اسلام یا قرآن دشمنی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو ہمارے حکمران بیانات کے گولے داغتے اور قراردادیں پاس کرکے سمجھتے ہیں کہ بس انھوں نے اپنا حق ِ مسلمانی ادا کردیا ہے ۔ ہمارے مسلمان حکمران شائد خلافت عباسیہ کاانجام بھول چکے ہیں ۔ اس وقت دنیا میں کوئی ایک مسلمان ملک بھی خلافت عباسیہ جیساطاقتور نہ تھا لیکن جب عباسی خلفا نے اسلام اور قرآن کے ساتھ بے وفائی کی تو اللہ نے ان کو صفحہ ہستی مٹادیا اور کی جگہ تاتاریوں کودنیا امامت عطا کردی تھی ۔ پس اس کا حل یہ ہے کہ آج کے مسلمان حکمران خود کو جانیں اور مسلمان ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داری کو پہچانیں ۔ کم از کم نبی علیہ السلام کی حرمت اور قرآن مجید کے تقدس کی حفاظت کیلئے ایک ہوجائیں۔ مغرب کو یہ باور کروائیں کہ قرآن مجید اور پیغمبر اسلام کی توہین آزادی اظہار نہیں آزادی فساد ہے جو کسی صورت بھی برداشت نہیں کی جائے گی ۔

ای پیپر دی نیشن