پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کی گرفتاری پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر ایک بڑا حملہ ہے جس سے سیاسی تنا¶ میں بے پناہ اضافہ ہوچکاہے،فواد چوہدری کے خلاف سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے تھانہ کوہساراسلام آباد میں مقدمہ ان کی دھمکی آمیز تقریر کے فوری ”بعد ہی درج کرکے ایف آئی آر کو سیل کردیا گیا تھا،جس کا مقصد ''ملزم”کو کسی بھی وقت بغیر بتائے گرفتار کرنا تھا۔میں سمجھتا ہوں کہ فواد چوہدری جیسے مرکزی رہنما کی گرفتاری پی ٹی آئی کے خلاف حکومت کے ایکشن کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے، ایسا منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا یعنی یہ سب کچھ عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے کیا جارہاہے ،اس سلسلے میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے خدشے کے تحت کارکنوں نے لاہور میں چیئرمین کی رہائشگاہ کے باہرڈیرے ڈال رکھے 4ہیں۔ہم نے دیکھا کہ جس دن فواد چودھری کو گرفتار کیا گیااس دن سخت سردی کے باوجود پی ٹی آئی کے حامی مردوخواتین اور بچوں نے پارٹی سربراہ سے یکجہتی کیلئے پوری رات زمان پارک کے باہر گزاری۔اس موقع پر پی ٹی آئی کارکنان سخت غصے میں دکھائی دیئے انہوں نے حکومت بالخصوص نگران وزیراعلی محسن نقوی اور پنجاب پولیس کے خلاف نعرے بازی کرکے ماحول کو گرما ئے رکھا جبکہ پارٹی رہنما¶ں کے غیر رسمی اجلاس میں عمران خان کی رہائش گاہ پر مسلسل پہرے کی حکمت عملی تیار کی گئی لیکن جہاں عمران خان پارٹی رہنماﺅں کے ہمراہ اپنی متوقع گرفتاری پر گفتگو کررہے تھے وہاں پی ڈی ایم کی جماعتیں بھی سر جوڑ کر بیٹھی ہوئی تھیں وہاں پر موجود میر ے ذرائع نے بتایا کہ پی ڈی ایم رہنماﺅں کے چہروں پر ہوائیاں صاف دکھائی دے رہی تھیں لندن سے براہ راست گفتگو کا سلسلہ جاری تھااور کسی بھی حال میں عوام کا غصہ کم کرنے کی ہدایات موصول ہورہی تھیں پھر اچانک ہم نے دیکھا کہ لاہور پولیس عمران خان کے زمان پارک والی رہائش گاہ سے کم ہونا شروع ہوگئی اور پی ڈی ایم نے پی ٹی آئی کے دیگر اہم رہنماﺅں اور متحرک کارکنان کی فہرستیں بنانا شروع کردی تھی تاکہ انہیں بھی گرفتار کرکے اس ابلتے ہوئے لاوے کو ٹھنڈا کیا جاسکے ۔ میں اپنے پڑھنے والوں کو یہ بتاتا چلو کہ جس اندازمیں کراچی میں پیپلزپارٹی نے بلدیاتی انتخابات کو جیتا ہے اس انداز میں یہ پورے پاکستان میں کہیں بھی کلین سویپ کرسکتے ہیں یعنی سرعام دھاندلی سے لیکن اصل مسئلہ عمران خان کی گرفتاری بھی نہیں بلکہ آنے والے دنوں میں ملک میں مہنگائی کا ایک اور مزید جان لیوا حملے سے توجہ ہٹانا ہے جس کے اثرات آئندہ ہفتے تک قوم پر بجلیاں بن کر ٹوٹیں گے۔کیونکہ آئی ایم ایف اس قوم کا دونوں ہاتھوں سے سرکچلنے کا ارادہ کرچکاہے اور سرعام حکومت سے ڈیمانڈ کی جارہی ہے کہ وہ ہماری ہر ایک شرط پر سر جھکالیں اس سلسلے میں وزیراعظم میاں شہباز شریف نے عالمی مالیاتی فنڈز کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ آپ کی تمام شرائط کو ماننے کے لیے تیار ہیں اور نویں جائزے کے لیے پروگرام مکمل کرنا چاہتے ہیںیہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام حقیقت میں قوم کے لیے ایک بھیانک پھانسی کا پھندا بن چکا ہے، قومی خزانے کا یہ حال ہے کہ وہ ٹوٹل حکمرانوں کی عیاشیوں کی
نظر ہوچکاہے حکومتِ پاکستان کے پاس درآمدات کے لیے ڈالر موجودنہیں ہیں۔ ڈالر کی قیمت میں بینکوں کے ساتھ نرخ الگ ہیں اور کھلی منڈی میں الگ، کھلی منڈی بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے جس کا ایک حصہ بلیک مارکیٹ کا بھی ہے۔ شہباز شریف کے پیغام سے پہلے گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام اسی وقت مکمل ہوگا جب ڈالر کے ریٹ کا فرق ختم ہوگا۔ ڈالر کے ریٹ میں کمی اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کو حکمرانوں کی جانب سے سخت اقدامات کا نام دیا جارہا ہے۔یعنی مہنگائی کا ایک ایسا سیلاب آنے والا ہے جس سے ملک میں نہ صرف آسودگی بڑھے گی بلکہ لوگ اپنے بچوں کا پیٹ نہ پالنے پر خود کشیوں پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے درست کہاہے کہ پاکستان بناناری پبلک بن چکاہے ، پاکستان میں جب کوئی سیاستدان عوام کے ووٹوں سے حکمران بنتا ہے تو وہ پارلیمنٹ کو جوتے کی نوک پر رکھ لیتا ہے اسمبلیوں کو ربڑ اسٹمپ سمجھ لیتا ہے صرف اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کا سوچتاہے جس کے لیے وہ من مانے فیصلے کرنے لگتا ہے۔ اور ملک کے اہم فیصلے خود کرنے کی بجائے انہیں بیوریوکریٹس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتاہے حالیہ دور میں پاکستان کے معیشت دان، سیاستدان، پرائس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ اور محکمہ خوراک مہنگائی کو روکنے اور اشیاءخورو نوش تک عوام کی آسان رسائی کے لیے ہیں جو کہ سب ناکام نظر آ رہے ہیں۔ معیشت درست کرنے کی ان کی ساری تدبیریں الٹی پڑچکی ہیں۔ملکی اثاثے بک رہے ہیں ملک قرضے کی مصیبت میں بری طرح جھکڑا جا چکا ہے، یہ ہے اس ملک کا حال ،اب کوئی اگر ایماندارسیاسی رہنما اس ملک کو سنوارنے کا سوچے بھی تو اسے آگے آنے نہیں دیاجاتا، پی ڈی ایم حکومت مکمل طور پر فلاپ ہوچکی ہے اورموجودہ حکمران یہ بھی جان چکے ہیں کہ عوام ہمیں بہت مشکل سے برداشت کررہی ہے اس سلسلے میںپی ڈی ایم کا خیال ہے کہ اگر فوری انتخابات ہوئے تواسکا پی ٹی آئی کو فائدہ ہوگا‘ معاشی فیصلوں کے بجائے حکومت کی پالیسی عمران خان پر مقدمات قائم کرکے انہیں جیل میں ڈالنا اور پھر امریکا سے مدد طلب کرنا ہے‘ لوگ کپتان کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔اسی لیے کراچی کا بلدیاتی الیکشن سب کے سامنے ہے کسی نے سچ کہاہے کہ پاکستان میں الیکشن کمیشن نے ہمیشہ دباومیں کام کیا ہے اورکبھی یہ دباو مقتدر حلقوں کی جانب سے رہا ہے تو کبھی سیاسی رہنماوں کی جانب سے۔ پاکستان میں سیاست دان ہر صورت میں پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑتے ہیں اور بعد میں قانون کے مطابق وہ صرف ایک ہی نشست رکھتے ہیں اس قسم کی باتیں کرنے پرفواد چودھری جیسے اپوزیشن رہنماوں کو دھرلیاجاتاہے، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ مرنے اور جیل جانے سے نہیں ڈرتا، آخری سانس تک لڑوں گا۔ فواد چودھری کی گرفتاری پر خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فواد چودھری نے چیف الیکشن کمشنر کو منشی کہہ دیاتو کون ساجرم کردیا، اعظم سواتی کا کیا قصور ہے۔ لیکن کپتان ان تمام ظلمات کو دہراتے وقت اس بات کو بھی اداکیا کریں کہ مانا کہ ان کے سیاسی رہنماﺅں کو سیاسی مقدمات میں گرفتار کرکے زدکوب کیا جارہاہے مگر ساتھ میں یہ بھی یاد رکھیں کہ ان رہنماﺅں سے زیادہ اس قوم کا گلہ دبایا جارہاہے انہیں جیتے جی ماراجارہاہے اس ملک کے معصوم بچوں کا مستقبل تباہ کیا جارہاہے یہ ہنستا بستا چمن اجاڑا جارہاہے کپتان ان کا بھی نام لیں آخر اس قوم کا کیا قصور ہے ۔
آخر اس قوم کا کیا قصور ہے ۔
Jan 27, 2023