ابھی یا پھر کبھی نہیں 

پاکستان کی سیاست میں صحیح معنوں میں قحط الرجال کی صورتحال ہے۔ باکردار، قدآور اور بااصول سیاستدان تلاشِ بسیار کے باوجود مل نہیں رہے۔ جو کھیپ سیاستدانوں کی اس وقت’مصروفِ کار‘ ہے ان میں الاماشاء اللہ کوئی ایک بھی ایسا مردِ کار دکھائی نہیں پڑتا جس پر پوری قوم کو اعتبار ہو یا جس پر اعتماد کیا جا سکے۔ ہر سیاستدان مفادات کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہے۔ اپنے اپنے مفاد کا بت بغل میں دبائے سیاست کے میدان میں سرگرمِ عمل ہے۔ ملک اور قوم کا مفاد کسی ایک کو بھی عزیز نہیں۔ ہر سیاسی لیڈر اور رہنما کہلوانے والا مخصوص عینک سے ملکی منظرنامے کو دیکھتا اور اس میں سے اپنا مفاد کشید کرنے میں لگا ہوا ہے۔ عصبیت، جاہ پرستی اور مفاد پرستی نے پورے سیاسی ماحول کو مکدر اور آلودہ کر رکھا ہے۔ بڑے بڑے عہدوں پر بونے بٹھا دیے گئے ہیں جنھیں اپنے ’قد‘ سے اوپر کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اصول، قانون اور ضابطے محض زبان و بیان تک محدود رہ گئے ہیں، عمل اس کے برعکس ہوتا ہے اور ستم یہ ہے کہ اس ’بدعملی‘ پر کسی کو بھی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی۔
گزشتہ برس اپریل میں عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ملکی سیاست میں جو اودھم مچا اور ہاہا کار ہوئی وہ آج نو ماہ بعد بھی اسی طرح جاری ہے۔ قومی اسمبلی سے تحریکِ انصاف کے اجتماعی استعفے پیش کرنے سے لے کر جلسے ، جلوس اور ادھورے لانگ مارچ تک،ضمنی الیکشن سے لے کر پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل تک ، سندھ کے بلدیاتی الیکشن سے لے کر پنجاب اور کے پی کے میں نگران وزراء اعلیٰ کی نامزدگی تک اور پھر تحریکِ انصاف کے ارکانِ قومی اسمبلی کے استعفوں کی ’آئین و قانون کی روشنی میں‘ نامنظوری سے لیکر اچانک منظوری تک کے واقعات و حوادث ہمارے ’اکابرینِ ملت‘ کے کردار و عمل پر روشنی ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ وہ اکابرین ہیں جنھیں اصولی طور پر اس درماندہ قوم کے لیے رول ماڈل ہونا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے ذاتی مفادات نے ان کے ضمیروں کو مردہ کر دیا ہے۔ آئین قانون، اصول اور ضابطے کیا ہوتے ہیں انکی بلا جانے۔ ان ’اعلیٰ شخصیات‘ میںحزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی کوئی تفریق و تخصیص نہیں۔ اس حمام میں خیر سے سب ننگے ہیں۔ کوئی کسی سے کم نہیں بلکہ ہر ناجائز اور خلافِ آئین و قانون اقدام کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ 
اقتدار کی چکاچوند نے ان کی آنکھیں چندھیا کر رکھ دی ہیں۔ انھیں اپنے علاوہ کوئی دوسرا دکھائی نہیں دیتا۔ قوم اپنے ان عظیم لیڈروں کی سرگرمیوں اور کردار و عمل کو بغور دیکھ رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاستدانوں کے کردار کی پستی کے جو مظاہر آج دیکھنے میں آ رہے ہیں ملک کی تاریخ میں پہلے کسی نے نہیں دیکھے۔ پورے ملک میں کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں رہی جو اصولوں کی بنیاد پر سرگرمِ عمل ہو، ہر سیاستدان دھڑلے کے ساتھ اخلاقی اقدار کو پامال کر رہا ہے۔ وعدے وعید محض سیاسی ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں جن پر عمل ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ سودے بازی کھلے عام کی جاتی ہے۔ ووٹوں کی خرید و فروخت کو عار نہیں سمجھا جاتا۔ شخصیت پرستی نے جمہوری قدروں کی مٹی پلید کر کے رکھ دی ہے۔ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں جن کے قائدین جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتے جمہوریت سے کوسوں دور ہیں۔ موروثیت غالب ہے۔ جماعتی انتخابات کی بجائے نامزدگی پر گزارا کیا جاتا ہے اور حد یہ ہے کہ کوئی بھی عہدیدار اس پر شرم محسوس نہیں کرتا۔ جو سیاستدان یا قائد اپنی جماعت میں آزادانہ و شفاف الیکشن کرانے کو تیار نہیں وہ ملک میں شفاف انتخابات کا مطالبہ کیسے کر سکتا ہے اور کس منہ سے منصفانہ انتخابات کی بات کرتا ہے؟ نیب کا ادارہ ایک نمائشی ادارہ بنا دیا گیا ہے۔ احتساب کا عمل مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے، الیکشن کمیشن خود پارٹی بن چکا ہے۔ جنھیں غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہونا تھا وہ اپنا یہ چوغہ اتار کرواضح طور پر سامنے آ چکے ہیں انکی غیر جانبداری اب جانبداری میں تبدیل ہوچکی ہے۔ کوئی ایک ریاستی ادارہ بھی اب ایسا نہیں رہا جس پر یہ قوم اعتماد کر سکے اور جو اس اندھیرے میں روشنی کی کرن ثابت ہو سکے۔ سو ان حالات میں کہ جب ہر ادارہ اپنی اہمیت ، حیثیت اور عزت و وقار کھو چکا ہو امید کی کوئی صورت دکھائی نہ پڑتی ہو تو پھر عمومی طور پر انتشار، بدامنی، خلفشار اور خانہ جنگی کے حالات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ زوال ایسی قوم کا مقدر بن جایا کرتاہے۔ یہی قانونِ قدرت ہے۔ یہی قوموں کی تاریخ ہے اور یہی تاریخ کا جبر ہے جس سے بچنا محال ہے۔ کیا کوئی بھی رجال ِکار ایسا ہے جو اس صورتحال میں قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے، اسے پستیوں میں گرنے سے بچا سکے اور مایوسیوں کے گھپ اندھیروں سے نکال کر امید، عزم اور حوصلہ دے سکے۔ بظاہر تو ایسا دکھائی نہیں دیتا لیکن قدرت قوموں کو ایک موقع ضرور دیتی ہے کہ وہ سنبھل جائیں۔ ملک کے حالات ، واقعات اور حوادث اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ اسی بجھتی راکھ میں سے چنگاری پیدا ہو گی۔ یہ گرتی پڑتی قوم ان شاء اللہ سنبھل جائیگی اور پھر سے اپنے پائوں پر کھڑی ہو گی۔ پے درپے دھوکے کھانے کے بعد اب اسے اپنے حقیقی اور غیر حقیقی رہنمائوں کی شناخت اور پہچان ہونے لگی ہے۔ شعور میں بیداری اور پختگی آتی جا رہی ہے۔ بھوک، ننگ، افلاس اور محرومیوں نے اسے کھرے اور کھوٹے کی پہچان کروا دی ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے ملک سے جونکوں کی طرح چمٹے سیاستدانوں کی اصلیت ظاہر ہو چکی ہے۔ عوام اب ان سے مزید دھوکا کھانے کو تیار نہیں، وہ اس بوسیدہ اور کہنہ نظام سے یکسر متنفر ہو چکے ۔ یہ نظام اب متعفن ہو چکا۔ اس سے اب کچھ ڈیلور نہیں ہو سکتا۔ اب ملک کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے جو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہو اور وقت کے چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ سو یہ وقت حقیقی تبدیلی کا ہے۔ اب اگر تبدیلی نہ آئی تو پھر کبھی نہیں آ سکے گی۔ قوم اس حقیقت کا جس قدر جلد ادراک کر لے اسی قدر اس کیلئے بہتر ہو گا۔ گویا ’ابھی یا پھر کبھی نہیں!‘

ای پیپر دی نیشن