اللہ کاطفیل

       اللہ کاطفیل     (احسان غنی)
 انسانی تاریخ میں برصغیر پاک وہند اہمیت کا حامل رہا ہے۔مشہورزمانہ جنگ آزادی اسی سرزمین پرلڑی گئی۔جنگ وجدل کابازارگرم رہا ،مغلوں ،سکھوں اور انگریزوں نے پورے خطے کو میدان جنگ بنائے رکھا،ہندو اور مسلمان پہلے سازشوں اور مصلحتوں کاشکار رہے پھرایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے۔اس شورش زدہ خطہ زمین سے بہت سی شخصیات نے ہندوئوں اور مسلمانوں کے رہنمائوں کے روپ میں بام عروج حاصل کیا۔جغرافیائی لحاظ سے برصیغر پاک وہند کامحل وقوع بہت زبردست مثالی ہے۔ سرحدیں ، ایران  افغانستان اور چین سے ملتی ہیں۔ٹھاٹھے مارتاسمندر ،بلندوبالا کوہسار،لق ودق صحرا ریگستان اور قدرتی وسائل اورخزانوں سے مالا مال اس سرزمین کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔اس خطے کے بہت سارے شہروں کو عالمی شہرت ملی۔انہی میں سے ایک شہر امر تسر نے کچھ منفردانداز سے تاریخ رقم کی۔امرتسر کی مٹی میں ایسی کشش ہے کہ اس کے باسی اسی کے محبت میں مبتلا رہتے ہیں۔یہ لوگ محبت ،خلوص ،پیار اور وفا کے اعلیٰ پیکر تھے۔اس مردم خیزخطے کی شخصیات میں صاحب طرزادیب ،شاعر ،مفکر، عالم دین ،اساتذہ اورسیاستدان ہر ایک نے اپنے اپنے شعبے میں خوب نام کمایا۔نامساعد حالات، آزمائشوں ابتلاء اور پُرآشوب ماحول کا مقابلہ بہادر، نڈرحوصلہ مند انسان کرسکتے ہیں ۔ایسی صورتحال میں انسان کی صلاحیتوں کوجِلاملتی ہے۔جن کی بدولت وہ ناممکن کو ممکن بناتا ہے۔ ایسی قدآور شخصیات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔جنہوں نے حق اور سچ کے لیے اپنی زندگیوں کو نچھاور کردیا۔یہ اولوالعزم ہستیاں عزم وہمت کے استعار کے ساتھ ہمیشہ کے لیے امر ہو گئی رہتی دنیا تک ان کے کارنامے منظر عام پر آتے رہیں گے۔اپنی لازوال جدوجہد سے تاریخ کا بہتادھار ابدل ڈالا۔جنگ آزادی، تحریک خلافت اور تحریک پاکستان بھرپورانداز میں اسی خطے سے شروع ہو کر اپنے انجام تک پہنچی۔نامور قائدین نے ان تحاریک کی قیادت کی اور مطلوبہ نتائج حاصل کیے ۔حالات وواقعات کے عمیق جائزے سے یہ امر عیاں ہوتا ہے کہ اخلاص ،دیانت وفااور بے لوث جدوجہد سے منزل کا حصول آسان ہو جاتا ہے۔24فروری 1927کا  سورج ایک نئی نوید لے کرطلو ع ہوا۔امرتسر میں ایک خوبرو نوزائیدہ بچہ کی پیدائش سے نورمحمد کے آنگن میں ہرسُو خوشیوں کی بہارآ گئی۔خاندان کا ہرفرد شاداں وفرحاں تھاکہ نورچشم فرزند ارجمند خاندان کی نیک نامی میں اضافے کا باعث بنے گا۔بچوں کے بچے دادادادی کے لیے راحت جاں ہوتے ہیں۔اسی طرح تہجد گزاردادی نے طفل معصوم کو اپنی آغوش محبت میں لے کر لاڈوں سے پرورش شروع کردی۔ نونہال پھلنے پھولنے لگا۔امرتسر کی گلیوں میں کھیلتے کودے پروان چڑتے ہوئے سکول سے  ابتدائی تعلیم خالصہ کالج امرتسر سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی زرعی زمینوں کی دیکھ وبھال کی۔ خوب سے خوب تر کی تلاش انسان کی شخصیت میں نکھا ر پیداکردیتی ہے۔ ایم۔ڈی تاثیر،فیض احمد فیض ،عطاء اللہ شاہ بخاری جیسی روزگار شخصیات کی مجالس میں زانوائے تلمذ طے کرناوالا نوجوان محمد طفیل امرتسری ایک توحید پرست سچاعاشق رسول حریت فکر کا مجاہد بن کرحق اور سچ کاعلم بلند کرتارہا۔1947ء میں قیام پاکستان کے وقت تاریخ کی سب سے بڑی اور ہولناک ہجرت ہوئی جس میں لاکھوں انسانوں خصوصاً مسلمانوں کو بے دردی سے شہیدکردیاگیا۔خواتین ،بچے ،بوڑھے اور نوجوانوں کو اُن کے پیاروں کے سامنے موت کی وادی میں اترگیا۔ہرطرف آگ ،گھیرائو ،جلائو، لو ٹ مار اور فسادات ہو رہے تھے۔ان حالات میں سکھوں کے ہاتھوں اپنے ماموں کی شہادت اور پھر عزیزاقارب کو ساتھ لے کر اپنے پیارے آبائی سے ہجرت کرنا جان جو کھوں کا کام تھا ۔ہجرت کے اس سفر میں اپنی والدہ ماجدہ، بیوہ بہن اُن کے بچوں کو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر بحفاظت پاکستان لے کرآنا اور پھر اُ ن کی رہائش کے لیے مناسب گھر کابندوبست کیا۔شبانہ روز انتھک محنت سے اُن کی دیکھ وبھال زندگی کا مشن رہا۔ہجرت کی مشکلات ومسائل کا بہادری سے مقابلہ کیا۔قیام پاکستان کے بعد رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے رفیقہ حیات کے روپ میں ایک نایاب ہمسفر عطاکیا۔ جوصبروشکر ،متانت وذہانت کا پیکرتھی۔ایک باوفا محبت کرنے والے جیون ساتھی کے ساتھ زندگی کے لیل ونہار خوشگوار ہو جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت سے بیٹیوں اوربیٹوں سے گلشن شمیم آبادہوا۔تمام بچوں کی تعلیم وتربیت احسن انداز سے اسلامی اصولوں کے مطابق کی۔گلشن شمیم کے پھولوں اورکلیوں سے جوگلدستہ بنا اُس کی مہک سے ہرایک جھوم اُٹھا۔ پنجاب حکومت کے محکمہ ہائی وے میں اعلیٰ پوزیشن پر اپنے فرائض منصبی پوری ایمانداری اوراصولوں کے مطابق ادا کیے۔ جائز کام بغیر سفارش،لالچ کے کیا اور ناجائز کام کسی بڑے سے بڑے سفارشی یا دبائو میں آکربھی نہیں کیا۔دورانِ ملازمت جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا لیکن اللہ کے فضل وکرم سے اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیںکی۔اسی وجہ سے ریٹائر منٹ پرپورا محکمہ اُن کو دفترسے گھرتک گلاب کی پتیاںنچھاور کرتے ہوئے چھوڑنے آیا تھا۔"دریا میں رہتے ہوئے دامن ترنہ ہو"یہ جملہ اکثراوقات اُن کی زبان سے سننے کو ملا جس کاعملی نمونہ وہ خود تھے۔قناعت ،خود داری اس قدر کہ سفر زیست کے گرم وسرد میں کبھی بھی اپنے رب کے سوا کسی سے کچھ نہیں مانگا۔عجزوانکساری سے ہر لمحہ اپنا تعلق باللہ ہی مضبوط کیا۔ اپنے اللہ سے رازونیاز ایسے انداز میں کرتے  کہ کسی کے وہم وگمان بھی نہ ہوتا نیم شبی میں ریاضیات ، طریقت اور راہ سلوک کے مختلف مدراج طے کر کے رشدوہدایت کی منزل پر خراماں خراماں محوسفر رہے۔اسی کا نتیجہ تھاکہ حق اور سچ کابابنگ دہل اظہارکیا۔مردم شناسی میں بھی کمال حاصل تھا اُن کا حلقہ احباب اس کا منہ بولتاثبوت تھا۔صاحب طرزادیب ،شاعر اورمقرر ایسے کہ جسے بات کریں تومنہ سے پھول جڑیں، سامعین کے دلوں کو گرما کرمحسور کردیتے تھے۔خوش گفتار،خوش لباس خوش اطوار اورنفاست کی اعلیٰ مثال اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے بچوں کے دوست مربی اورایک شفیق استاد کی طرح اُن کی تربیت کی گھر میں جمہوریت اور مکمل آزادی تھی۔ساری زندگی اپنے رشتہ داروں اور قرابت داروں کی دلجوئی میں مصروف رہے۔اپنی بہنوں اور اُن کے بچوں کے لئے ہمیشہ شجر سایہ داررہے۔اپنی صاحبزادیوں کو حقیقی معنوں میں جگر گوشہ بنائے رکھا،تسنیم ،فائزہ اور صائمہ نورالعین تھیں۔دامے، درمے، سخنے اُن کو اور جو بھی بہو،بیٹی گھر ملاقات کرنے آتی کبھی خالی ہاتھ نہ جانے دیتے۔اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی کی خاطرباقاعدگی سے صدقہ نکالتے کہ کسی کو خبر بھی نہ ہوتی۔خاندان کے بڑے ہونے کا حق اداکردیا۔تابعداراورفرماں بردار صاحبزادوںنے ہمیشہ اُن کے ہرحکم پرسرتسلیم خم کیا۔راقم کو مشیرخاص ہونے کاشرف حاصل رہا ۔اُن کے تمام مالی معاملات کی نگرانی کافریضہ سرانجام دیتارہا۔اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق ہونے کی وجہ سے بچوں کوتوحید خالص اور عشق مصطفی کادرس دیا۔اکثراوقات علامہ اقبال کی رباعی دہراتے رہتے تھے۔ع
 توغنی ازھر دوعالم من فقیر
 رزومحشر عُذر ھائے من پذیر
 گرتومی بینی حسابم ناگزیر 
 ازنگاہ مصطفی پنہاں بگیر
ترجمہ: اے اللہ تو سارے جہانوں کاغنی ہے،اور میں ایک عاجز مانگنے والد فقیر قیامت کے دن مجھے معاف فرمانا اور مجھ سے حساب نہ لینااگر واقع میرا حساب ناگزیر ہو تو ایک مہربانی کرنامجھے سرکار دوعالم کی نگاہوں سے دورلے جا کر حساب لینانیک روح اطمینان وسکون سے اپنے خالق حقیقی سے ملنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے بالکل اسی طرح یہ مرد درویش 11جنوری 2021کو وقت عصر نماز کی ادائیگی کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔راقم دنیاکا خوش قسمت ترین انسان ہے۔جس کے طفیل آج دنیا کی بہاریں دیکھنے میں مصروف ہے۔اللہ رب العزت کے طفیل کی بدولت سجدہ شکربجالاتا ہوں۔
بقول علامہ اقبال 
 ع نشان مرد مومن یا تو گریم
 چوں مرگ آیدتبسم برلب اوست
ترجمہ:  تم مجھ سے مومن کی نشانی پوچھتے ہو
 جب موت آتی ہے تو اس کے ہونٹوں پرمسکراہٹ ہوتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن