فہمیدہ کوثر
آٹھ فروری کو ایک بار پھر قوم کی تقدیر کا میلہ لگے گا اور اکثریت سے جیتنے والی پارٹی کے سر پر اقتدار کا ہما آکر بیٹھے گا اب سوچنا یہ ہے کہ ان انتخابات میں رب کی رضا شامل ہوگی عوام کی رضا شامل ہوگی یا کسی اور کی رضا شامل ہوگی اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا تاہم اقبال کے اس فلسفہ کو مدنظر رکھنا ہوگا
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
لیکن سیاست تک آتے آتے شعر کا مفہوم بدل جاتا ہے اور خود ی کی آبیاری کرنے کی بجائے ہم خود کی خواہشوں کی آبیاری شروع کردیتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سیاسی دنگل نورا کشتی ثابت ہوتا ہے
اور غیر سیاسی کلچر کو پنپنے کا موقع ملتا ہے ایک سیاسی راہنما سے پوچھا گیا کہ محترم کیا آپ بتائیں گے کہ سیاسی اور غیر سیاسی کلچر میں کیا فرق ہے وہ محترم کچھ دیر سوچتے رہے پھر بولے سیاسی کلچر یہ ہے کہ ملک کتنی ترقی کررہا ہے ملک میں جابجا سڑکوں کا جال پھیلا ہوا ہے کئی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے درحقیقت تعمیری سوچ ہی سیاسی کلچر ہے لیکن وہ صاحب یہ بھول گئے کہ سیاسی کلچر کا بنیادی نکتہ جمہوریت اور جمہوریت کا پہلا اصول عوام کی خوشحالی ہے لیکن جیسا کہ پہلے وضاحت کی جاچکی ہے کہ ہمارے ہاں خودی کا پہلا اصول خود کی ترقی ہے تو عوام گئی تیل بیچنے۔
ہمارے ہاں ہر الٹ کام جائز سمجھا جاتا ہے وہاں سب سے زیادہ سیاسی گفتگو ہوتی ہے جہاں لکھا ہوتا ہے سیاسی گفتگو منع ہے وہاں پر جابجا ٹھیلے لگے ہوتے ہیں جہاں دیوار پر لکھا ہوتا ہے جہاں ٹھیلے لگانا منع ہے ہم نے جب سے ملک خداداد کو جمہوری قرار دیا جمہوریت کا شائبہ تک نہیں اسکی مثال کچھ یوں دی جاسکتی ہے کہ ایک شخص درخت پر بیٹھا اسی شاخ کو کاٹ رہا تھا جس پر وہ بیٹھا تھا کسی راہگیر نے گزرتے ہوئے کہا بیوقوف گر پڑو گے اس شخص نے پرواہ نہ کی اور مسلسل شاخ کاٹتا رہا آخر گرگیا اب وہ بھاگا بھاگا ا س شخص کے پاس آیا اور بولا تمھیں کیسے پتہ کہ میں گر پڑوں گا اس نے کہا کہ تمھارے ماتھے پہ لکھا ہو ہے کہ تم بیوقوف ہو ہمارے لئے لمحہ فکر یہ ہے کہ نہ ہم اپنے ماتھے پر لکھی تحریروں کونہیں پڑھتے اور جو یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ آپکی پیشانی پر آپکی ناکامی کی تحریر لکھی ہے اسے کیفر کردار تک پہنچانے میں لگ جاتے ہیںبات سیاسی دنگل کی ہورہی تھی تو اقتدار تو اس کے ہاتھ آئیگا کہ جس میں دم خم زیادہ ہوگا ایک مزاح نگار نے لکھا کہ پاکستان کی تاریخ میں تو یہی سامنے آیا کہ دم پیچھے رہ گیا اور خم والوں کے ہاتھ حکومت لگ گئی تاریخ نے تو یہ بھی ثابت کیا ایسی خم شدہ حکومتیں پھر مستحکم نہ ہوسکیں عوام کاپچھتر سالوں سے یہ ہی نظریہ رہا کہ کوئی اللہ کا بندہ آئیگا تو سب کچھ ٹھیک ہو جائیگا ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اللہ کہ بندے کو آنے ہی نہیں دیا جاتا لہٰذا ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا کسی زمانے میں میں نے ایک افسانہ نجات دھندہ کے نام سے لکھا تھا جسکا لب لباب یہ تھا کہ بستی کے چند لوگ نجات دھندہ کی تلاش میں بستی کے دہانے پر جا کے کھڑے ہوجاتے تھے کہ کوئی نجات دھندہ آئیگا اور ہمیں غربت اور مہنگائی کے عذاب سے نجات دلائے گا ایک زمانہ تھا کہ بچوں کو جو کہانیاں سنائی جاتی تھیں وہ اس طرح سے ہوتی تھیں کہ بستی میں ایک بلا رہتی تھی جو روز ایک آدمی کو ٹھا کرلے جاتی تھی پھر وقت کے ساتھ ساتھ بتہ چلا کہ وہ بلا لا قانونیت ہے جو سب سے پست طبقے کو اپنے پنجے میں جکڑتی ہے بات نجات دھندہ کی ہورہی تھی تو بستی والوں کو ایک روز ایک نیک شخص ملا اور اس نے کہا ارے بیوقوف نجات دھندہ باہر سے نہیں آتا بلکہ تم لوگوں کے اندر چھپا ہوتا ہے بستی والوں نے پوچھا کہ اسکی کیا نشانی ہے تو اس شخص نے جواب دیا کہ وہ اپنے کردار کی عظمت سے اور گفتار سے پہچانا جاتا ہے سیاسی دنگل سج چکا ہے اگر چہ وہ جوش اور خروش تو نہیں جس میں سب راہنما خود کو نجات دھندہ ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں لیکن یہ دنگل آزمائش ضرور ہے کہ ہم کسی نجات دھندہ کو کامیاب کرواتے ہیں یا کہ پچھلے پچھتر سالوں کی طرح نیک آدمی یا نجات دھندہ کی تلاش ازسر نو شروع کردیتے ہیں۔