(نسیم الحق زاہدی)
پاک فوج کا آپریشن ’’آپریشن مرگ بر سرمچار‘‘ فارسی میں جس کا مطلب ’’دہشت گردوں کی موت‘‘صرف ایران کے کل کے حملہ کا جواب نہیں بلکہ ہمارے ازلی دشمن کے لئے بڑا سر پرائز بھی ہے۔پاکستان ہمارا فخر اور افواج ہمارا غرور جنہوں نے جنگ ہو یا قدرتی آفت ہمیشہ قوم کے جذبات کی ترجمانی کی اور قوم کوکبھی مایوس نہیں کیا۔ الحمداللہ! بہادر پاک فوج نے اپنی شاندار روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایرانی حملے کا دندان شکن جواب دیا۔پاکستان نے ایران کے اندر ان ٹھکانوں کے خلاف موثر حملے کیے جو پاکستان میں حالیہ حملوں کے ذمہ دار دہشت گردوں کے زیر استعمال تھے۔ حملے کلنگ ڈرونز، راکٹوں، بارودی سرنگوں اور اسٹینڈ آف ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے کیے گئے۔ باہمی نقصان سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ احتیاط برتی گئی۔بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ نامی دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال ٹھکانوں کو انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن میں کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔ دشمن نے جان لیا ہو گا کہ پاک فوج اپنی ملکی سلامتی کے تقاضوں سے قطعاً غافل نہیں،اور قومی خودمختاری اور علاقائی سا لمیت کا احترام اور کسی بھی مہم جوئی کے خلاف تحفظ کو یقینی بنانے کا عزم صمیم ہے۔ جبکہ حالیہ پاک ایران تناؤ کوئی خوش آئند بات نہیں ہے کیونکہ دونوں نہ صرف پڑوسی بلکہ برادر اسلامی ملک بھی ہیں۔ان کی کشیدگی سے یقیناکفار کی باچھیں کھل گئیں ہوں گی۔سب سے بڑی بات کہ دونوں ملکوں کے مابین امن معاہدہ ہے جس کے تحت وہ ایک دوسرے پر حملہ آور نہیں ہو سکتے۔جب ایران نے پاکستانی علاقے پنجگور میں اسٹرائیک کی جس کے نتیجے میں بچیاں جھلس گئیں اور بچے زخمی بھی ہوئے۔حالانکہ پا کستان نے انہیں باور کروایا کہ یہ حملہ ہماری سا لمیت و خودمختاری پر ہے اور احتجاجاً ایران کے نائب سفیر کو طلب کیا ایران سے پاکستانی سفیر مدثر ٹیپو کو واپس طلب کر لیا اور پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر کو ایران میں ہی رہنے کا کہا گیا۔ایرانی سفیر سیکورٹی ایڈوائزر کونسل کے ڈپٹی بھی ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر ایران نے جارحیت کا مظاہرہ کیوں کیا؟۔ایران کی جانب سے معذرت کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ سامنے آیا جو کہ انتہائی افسوناک ہے۔ دونوں اسلامی ملک جو ایک دوسرے کے پڑوسی بھی ہیں ان کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہو نگے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خطے میں امن و امان کی صورتحال بھی خراب ہو گی۔وہ بھی اس نازک وقت میں جب فلسطینی اپنی بقاء اور اسلام کی سر بلندی کی جنگ لڑی رہے ہیں۔اسرائیلیوں کو سبق سکھانے کے بجائے آپسی اختلافات عالم اسلام کے لئے زہر قاتل ہیں۔دوسری جانب پاک آرمی نے ایرانی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے ایران میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کئے اور پانچ دہشت گرد ہلاک ہوئے جن کا تعلق BLF اور BLA سے تھا۔BLF کو اقوام متحدہ نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔نشانہ بنائے گئے ٹھکانے بدنام زمانہ دہشت گرد استعمال کر رہے تھے جن میں دوست عرف چیئرمین، بجر عرف سوغت، ساحل عرف شفق، اصغر عرف بشام اور وزیر شامل ہیں۔ایرانی حملے پر جوابی وار کرتے ہوئے پاکستان نے دنیا کو دکھا دیا کہ وہ اپنی سا لمیت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔اس سے قبل بھی پاکستان منہ توڑ جواب دے چکا ہے۔جماعت الاحرار پر حملہ کر کے اس کو تتر بتر کر دیا گیا تھااور افغانستان کے اندر بھی دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کامیاب حملے کئے گئے تھے۔پاکستان نے بڑی جنگی مہارت اور کمال حکمت عملی سے دہشت گردوں پر حملے کئے اور کوئی سویلین جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔ جبکہ ایرانی حملے میں شہری ہلاکتیں ہوئیں اور کہا گیا کہ جیش العدل کے ٹھکانوں پر حملہ تھا اور جیش العدل کا بیان بھی سامنے آچکا ہے کہ یہ حملہ ان پر تھا۔میزائیل غلطی سے پاکستان میں چلا گیا تھا۔اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ ہمارے سپہ سالار جنرل عاصم منیر انہوں نے ملک کے اندر پٹرول مافیا،چینی مافیا سمیت اسمگلروں کے گرد شکنجہ کسا۔افغان پالیسی ترتیب دی۔ٹی ٹی پی کو نکیل ڈالنے کے لئے فوجی آپریشن کئے اور اب ایرانی جارحیت پر فوری رد عمل دیتے ہوئے ایران کو یہ باور کروا دیا کہ پاک فوج اپنے ملک کے دفاع کے لئے ہمہ وقت چوکس اور چاک و چوبند ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ تحمل سے کام لیا اور ایران کو اکاموڈیٹ ہی کیا ہے۔ سعودی عرب سے کیسے ہی مراسم رہے، پاکستان نے ایران سے توازن قائم رکھا۔ایرانی سرحد سے پاک سیکورٹی فورسز پر حملے ہوتے رہے، جنوری 2023 ء میں ضلع پنجگور میں ایرانی سرحد کے باہر ایران کی جانب سے دہشت گردانہ سرگرمی کے دوران چار سیکورٹی اہلکار شہید ہوگئے تھے، اپریل 2023 ء میں ایران کی طرف سے دہشت گردوں نے کیچ میں پاکستان فورسز پر حملہ کیا۔کلبھو شن یادو بھارتی حاضر سروس جاسوس بھی ایرانی سرزمین سے پاکستان میں داخل ہوا تھا اس کے باوجود پاکستان نے پاک ایران تعلقات پر ضرب نہیں آنے دی۔ پاکستان نے کسی بھی عالمی فورم پر ایران کے خلاف بیان بازی تک نہیں کی۔ مگر سب کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایرانی حملوں کے ردعمل میں پاکستان کو یہ کارروائی کرنی پڑی ہے اور اس کے بغیر پاکستان کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ بہر حال ایران کے یہ اچانک حملے باعث تعجب بھی تھے اور تکلیف دہ بھی۔ آخر ایران نے یہ حرکت کیوں کی؟اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایران ریولیشنری گارڈ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو فلسطین،حماس اسرائیل،غزہ کی جنگ کا رخ پاکستان کی جانب موڑنا چاہتے ہیں۔قبل ازیں ایرانی شہر کرمان میں 103 افراد کی شہادت کا ہولناک واقعہ پیش آیا جو بے حد افسوسناک ہے اور جس کی ذمہ داری داعش افغان چیپٹر نے قبول کر لی تھی۔اس کا آخر پاکستان سے کیا تعلق ہے کہ ایران نے ہمسایہ برادر ملک کے خلاف اتنا بڑا جارحانہ اقدام اٹھا لیا۔حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ ایران میں بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر جو تہران کے دورے پر تھے ان کے بھارت واپسی کے پانچ گھنٹے بعد پاکستان حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سویلین آبادی پر حملہ کیا گیا۔اس میں کہیں نہ کہیں بھارتی ساز ش کی بو آرہی ہے۔کیونکہ ہمارا ازلی دشمن کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ خطے میں پاکستان،ایران اور افغانستان کے مابین خوشگوار تعلقات قائم ہواور اقتصادی راہداری ’’سی پیک‘‘ کا انقلابی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔تاہم پاک فوج کی کارروائی کے بعد ایسے بے شمار عناصر سوشل میڈیا میں بے نقاب ہو چکے ہیں۔ اس سوشل میڈیا مہم میں ہندوستانی اکاؤنٹس نے بھی بھر پور حصہ لیا،بلاشبہ ’’آپریشن مرگ بر سرمچار‘‘ سوشل میڈیا پر پاکستان ریاست مخالف اور افواج مخالف غداروں، بھگوڑوں اور ملک دشمنوں کے منہ پر بھی زناٹے دار تھپڑ ہے جو سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اورزہر اگل رہے تھے۔