دو قومی نظریہ اور نوجوان

 قائداعظم محمد علی جناح سے جب پوچھا جاتا کہ وہ نئے ملک کا مسلمانوں کیلئے مطالبہ کر رہے ہیں تو یہ ملک کیسا ہو گا اس کا آئین کیسا ہو گا اس کے قوانین کون مرتب کرے گا تو حضرت قائداعظم نے ناقدین کو جواب دیا کہ آپ کو اس حوالے سے پریشان ہونے کی ضرور ت نہیں ہے کہ ملک پاکستان کا آئین آج سے چودہ سو سال پہلے ہی قران و حدیث کی صورت میں متعین کر دیا گیا تھا اور پاکستان کے باشندے اپنی زندگیاں اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق گزاریں گے۔
قائد کی بصیرت ہی تھی کہ انہوں نے کہا پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ پر ہو گی یعنی بر صغیر میں صرف ہندو نہیں بستے یہاں د وقومیں آباد ہیں مسلمان اور ہندو جن کا صدیوں سے ایک ساتھ رہنے کے باوجود رہن سہم، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، رسم و رواج سب کچھ ایک دوسرے سے الگ ہے۔
 آج جب بھارت میں ہم مسلمانوں پر ظلم ہوتا دیکھتے ہیں تو قائد کی بصیرت کے معترف ہو جاتے ہیں کہ اگر خدا نخواستہ پاکستان نہ ہوتا تو بر صغیر کے مسلمانوں کا آج کیا حال ہوتا۔ آج ہم پاکستان میں نماز پڑھ سکتے ہیں، مسجد بنا سکتے ہیں، سکول بنا سکتے ہیں، اپنا آئین ہے، مکمل آزادی ہے تو یہ سب کچھ صرف قائد کی بدولت ہے وگرنہ آج ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں مسلمان نماز پڑھنے سے عاجز ہیں۔وہاں آئے روز ہندو انتہا پسند کبھی انہیں لباس کی وجہ سے نشانہ بناتے ہیں تو کبھی ان کے ناموں کی وجہ سے تشدد کا شکار کرتے ہیں۔ آج بھارت کا مسلمان گائے کو گوشت نہیں کھا سکتا گوشت کھانا تو دور مسلمانوں کو گائے کے گوشت بیچنے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔
اسی دو قومی نظریے کو دوبارہ سے قوم کے نوجوانوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے کی ضرورت ہے اور اسی جانب ہماری پاک فوج کے سربراہ سید حافظ عاصم منیر نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کچھ دن قبل جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو بنانے کا مقصد یہ تھا کہ ہمارا مذہب، تہذیب و تمدن ہر لحاظ سے ہندوئوں سے مختلف ہے نہ کہ ہم مغربی تہذیب و تمدن کو اپنا لیں، نوجوانوں کو اپنے وطن، قوم، ثقافت و تہذیب و تمدن اور اپنے آپ پر بے پناہ اعتماد ہونا چاہئے۔
 اس موقع پر آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قیام کی ریاست طیبہ سے مماثلت ہے دونوں کلمے کی بنیاد پر قائم ہوئی ،پاکستان کے نوجوانوں کو اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ وہ ایک عظیم وطن اور قوم کے سپوت ہیں، ہمارے ملک کے نوجوان اس قوم و ملک کی روشن روایات، اقبال کے خوابوں اور قائد کی تعمیر کے امین ہیں۔
 آرمی چیف کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ نوجوانوں کو بس باور کرانے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک عظیم ملک کے باسی ہیں اور ان کا تعلق ایک اسلامی تہذیب و تمدن والے ملک سے ہے جس کی اپنی تاریخ ، اپنا نظریہ ، اپنے ہیرو ہیں اور اس ضمن میں ہمیں اغیار کی پیروی کرنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ آرمی چیف کی بات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستان میں کسی اور کیلئے گنجائش موجود نہیں ہے کیوں کہ پاکستان اسلام کے ماننے والوں کا ملک ہے تو اس مناسبت سے وہ نوجوانوں کو یاد دلانا چاہ رہے تھے کہ ان کے ذہن میں یہ بات ہمیشہ موجود رہنی چاہئے کہ ان کے ابائو اجداد نے یہ ملک کس مقصد کیلئے حاصل کیا تھا اور اس مقصد سے ہمیں رو گردانی نہیں کرنی چاہئے۔ 
آرمی چیف نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں آزادی کا احساس دلانے کیلئے جو یہ کہا کہ آزادی اور حرمت کی قیمت فلسطین اور مقبوضہ کشمیر والوں سے پوچھیںتو ان کی یہ بات درست ہے۔ کیوں کہ ہمارا نوجوان اس وقت سوشل میڈیا پروپیگنڈا کا شکار ہے اور بیرون ملک بیٹھے عناصر ان کچے اذہان میں ملک کیخلاف زہر بھر رہے ہیں اور انہیں اپنی ہی مسلح افواج کیخلاف برانگیختہ کر رہے ہیں۔
 آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو اسی لئے یہ کہنا پڑا کہ سوشل میڈیا اور پروپیگنڈے کا مقصد بے یقینی، افرا تفری اور مایوسی پھیلانا ہے ، سوشل میڈیا کی خبروں کی تحقیق بہت ضروری ہے، اس بات میں کوئی دو رائے ہے ہی نہیں ہے کہ جو بات بنا تحقیق کی جائے یا جس بات کی بنیاد کوئی نہ ہو وہ انتشار کا باعث بنتی ہے۔
 ویسے بھی اللہ تعالی قران پاک میں فرماتے ہیں کہ :
’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اْس کی تصدیق کرلو‘‘ 
تو اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم بطور پاکستانی بھارتی اور اسرائیلی پراپیگنڈے کا شکار نہ ہوں اور سوشل میڈیا پر چند لائیکس یا چند کمنٹس کیلئے اپنے ہی ملک کیخلاف کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے ملک کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔

ای پیپر دی نیشن