’’جادو کی چھڑی‘‘

بلاشبہ جمہوریت ہی بہترین طرزِ حکومت ہے جس میں عوام کے نمائندے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں اور پھر اقتدار میں آ کر عوام کے مسائل حل کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں الیکشن تو ہوتے ہیں، منصفانہ اور شفاف نہیں ہوتے۔ ماضی میں جتنے بھی الیکشن ہوئے ان کی شفافیت آج بھی ایک سوالیہ نشان ہے؟ اور پھر 76سال سے عوامی مسائل جوں کے تُوں ہیں۔ 
ہماری معاشی حالت کا یہ عالم ہے کہ چند دن قبل نگران وزیراعظم کی طرف سے یہ کہا جا رہا تھا کہ آئی۔ ایم۔ایف کی سب شرائط ہم مان رہے ہیں۔ ظاہر ہے وہ قرضہ دیتے ہیں ان کی شرائط بھی ماننا ہوتی ہیں۔ ٹیکسز کی مَد میں پیسہ سارا غریب عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔ الیکشن میں سیاستدان ’’سہانے خواب‘‘ سبھی دکھاتے ہیں جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔
 اقتدار میں آنے کے بعد ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ہمارے پاس ’’جادو کی چھڑی‘‘ تو نہیں ہے کہ جو وعدے ہم نے کیے وہ پورے بھی کریں۔ پھر ان کی ساری توجہ ’’کرپشن‘‘ کی طرف مبذول ہو جاتی ہے بلکہ ایک سیاسی جماعت کی یہ آواز بھی سنی گئی کہ کرپشن ہوتی ہے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ پھر ہمارے ہاں کرپشن کو سرکاری سرپرستی حاصل ہو جاتی ہے۔ 
نیب کا ادارہ کرپشن کے خاتمے کے لیے بنایا گیا تھا۔ مگر شاید آج کرپشن کی سب سے بڑی وجہ بھی ’’NAB‘‘ ہے۔ جسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر نیب نے ہی ’’پلی بارگین‘‘ کو متعارف کرایا جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بے شک کرپشن کریں اور لوٹی ہوئی رقم سے کچھ حِصّہ واپس کر دیں پھر آپ آزاد ہیں۔ اس سے بڑھ کر سابقہ PDMحکومت نے تو باقاعدہ طور پر قانون سازی کی ہے کہ پچاس کروڑ تک آپ اگر کرپشن کرتے ہیں تو آپ کو نہیں پوچھا جائے گا۔
 دوسری طرف ہمارے ہاں ’’احتساب‘‘ کا رواج ہی نہیں ہے۔ کوئی کسی سے نہیں پوچھ سکتا کہ جناب آپ وزیراعظم یا وزیر، مشیر رہے ہیں۔ آپ کی جائیداد میں کئی ہزار فیصد اضافہ ہوا ہے یہ پیسہ کہاں سے آیا تھا؟ بیرون ملک محلات بنائے۔ اس کی ’منی ٹریل‘ دیں۔ نہیں ہمارے ہاں ’’اشرافیہ‘‘ سے یہ نہیں پوچھا جا سکتا۔کہا یہی جاتا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس ملک کی اہم شاہراہیں ’گروی‘ رکھ کر قرضے لیے گئے ہیں۔ بخدا اگر شریعت محمدیؐکے مطابق ہر ایک کا بلاتفریق احتساب ہو تو ملکی قرضے بھی اتر جائیں اور وطن عزیز میں ایک بھی غریب نہ رہے۔ الیکشن تو کئی بار ہو چکے ہیں ۔ لوگ بے چارے ووٹ بھی دیتے ہیں۔ 
آج 76سال بعد بھی شدید سردی میں بجلی اور گیس دونوں کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ گیس سے چولھا نہیں جلتا مگر بِل ساڑھے چارسو فیصد اضافے کے ساتھ آتا ہے۔ بجلی کے بلز ادا کرنے کے لیے لوگ گھریلو اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کیلئے یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی اب عملاً وبال جان بن چکی ہے مگر حکومتوں کی طرف سے عوام کو صرف طفل تسلیاں ہی دی جا رہی ہیں۔ 
 76سالوں میں انہی حکمرانوں نے یہ مسائل حل کرنے تھے کیوں نہیں کیے؟ ان کی اپنی جائیدادیں تو کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ہم نے ایٹمی دھماکے کیے، موٹرویز بنائیں۔ ایٹمی دھماکے کرنا کونسا کریڈٹ ہے؟  75سال سے یہ بنایا جا رہا تھا جب مکمل ہوا تو کسی نہ کسی نے دھماکہ کرنا ہی تھا۔ یہ کام عوام کے ٹیکسز کے پیسوں سے کیے جاتے ہیں ،کوئی سیاسی پارٹی ذاتی جیب سے تو نہیں کرتی۔اس وقت ایٹمی طاقت کی حالت زار یہ ہے کہ بیرونی قرضوں میں اس قدر جکڑی ہوئی ہے کہ کھربوں کے قرضے لینے اور بیل آئوٹ پیکیج لینے کے باوجود اسکی معیشت اپنے پیروں پر نہیں کھڑی ہو پا رہی۔جو سیاسی جماعت اقتدار میں آتی ہے‘ مگر عوام کے پیسوں سے عوام کے کام کرکے پھر یہ احسان بھی جتاتی ہے۔ حکمرانوں کی اولین ترجیح عوام کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنا ہونا چاہیے۔ مہنگائی، بیروزگاری ،غربت کا خاتمہ ہونا چاہیے اور انصاف عوام کو دہلیز پر ملے۔ 
اپنا انتخابی منشور پیش کرتے ہوئے ایک سیاسی پارٹی دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ عوام کو 300یونٹ بجلی فری دیگی ‘ جبکہ دوسری کا دعویٰ ہے کہ تنخواہ دوگنا کریں گے۔ بلاشبہ ہم عوام آپ کے ساتھ مخلص ہیں اور اسی لئے ہر بار آپ پر اعتماد کرکے آپ کو انتخابات میں بھاری مینڈیٹ دیکر مسند اقتدار پر بٹھاتے ہیں۔ برائے مہربانی عوام کو اس قدر تو ’’سہانے خواب‘‘ نہ دکھائیں کہ بعد میں آپ کو کہنا پڑے کہ ہمارے پاس ’’جادو کی چھڑی‘‘ تو نہیں ہے کہ ایسا کریں۔ عوام صرف اپنے مسائل کا پائیدار حل اور مہنگائی سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ 8 فروری کو انتخابات ہونے جا رہے ہیں‘ دیکھتے ہیں کہ اقتدار میں آنیوالی پارٹی اپنے وعدوں کی کتنی پاسداری کرتی ہے۔؟
٭…٭…٭

سید روح الامین....برسرمطلب

ای پیپر دی نیشن