پاکستان اس وقت جس ترقی معکوس کو ظاہر کر رہا ہے اس میں زندگی کے مختلف شعبے پوری برق رفتاری سے بازی لے جانے کےلئے دوڑتے نظر آئینگے مگر کوئی بھی تعلیم کو شاید مات نہ دے سکے۔ اسکی مثبت پہلو وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ شاید اعلیٰ تعلیم کو مسلسل نظرانداز کرنا اور وہاں میرٹ کی دھجیاں اڑانا اور دھجیاں اڑانے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور انہیں نوازنا قرار پائے۔ یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں کے تقرر میں جب سے میرٹ نظرانداز ہوا معیار گرنے لگا۔ اس منصب جلیلہ پر کیسے کیسے نابغہ روزگار سکالر کام کرتے رہے ہیں‘ وہ کس طرح اپنا مقام پہچانتے اور احترام کرتے تھے اسکی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر حمید احمد خاں کے دور میں یونیورسٹی میں طالب علموں نے ہڑتال کر دی تو گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خاں نے وائس چانسلر کو گورنر ہاﺅس بلایا۔ پروفیسر حمید احمد خاں گورنر ہاﺅس پہنچے تو ویٹنگ روم میں ہڑتالی طلبہ کا ایک نمائندہ وفد بھی موجود تھا۔ وائس چانسلر نے طالب علم لیڈروں کو دیکھا تو گورنر سے ملے بغیر واپس آگئے۔ گورنر کے ملٹری سیکرٹری کو صرف اتنا بتا دیا کہ وہ اس لئے واپس جارہے ہیں کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لینے والے طالب علموں کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتے۔ دو دن تک گورنر اور پروفیسر حمید احمد خاں کے درمیان کوئی رابطہ نہ ہوا۔ کسی تقریب میں گورنر امیر محمد خاں اور وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر حمید احمد خاں کا جونہی ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہوا گورنر نے دو دن پہلے کے وائس چانسلر کے اقدام پر صرف ایک فقرہ کہہ کر پروفیسر حمید احمد خاں کے عزت و وقار اور خودداری سبھی کو خراج تحسین پیش کر دیا۔ ملک امیر محمد خان بولے \\\"I am proud of you\\\"۔ یہ وائس چانسلر کا بھی احترام تھا اور گورنر نے خاندانی وقار اور اس منصب جلیلہ کی بھی اسی ایک فقرے کے ذریعے حفاظت کر لی۔
لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمن گورنر مغربی پاکستان تھے۔ ایک روز انہوں نے سیکرٹری تعلیم کے ذریعے کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین سے کچھ معاملات پر بات کی جس کا ڈاکٹر اشتیاق حسین نے برا منایا وہ چانسلر اور وائس چانسلر کے درمیان کسی سیکرٹری کو وسیلہ ابلاغ بنانے پر تیار نہ تھے۔ انہوں نے جب گورنر سے اپنے ان تحفظات کا ذکر کیا تو گورنر نے کمال فراخدلی سے وائس چانسلر کے نقطہ نظر کو درست قرار دیا اور اپنے اس اقدام پر افسوس کا اظہار کیا۔ جنرل عتیق الرحمن نے اپنی خودنوشت ”بیک ٹو پویلین“ میں یہ ساری تفصیل لکھی ہے۔
یہ وہ وائس چانسلر تھے جو اس منصب کےلئے درخواستیں دےکر اور کسی ایسی سرچ کمیٹی کے سامنے انٹرویو کےلئے پیش ہو کر جس کے جملہ ارکان ہی سے ایک یا شاید کوئی بھی اس قابل نہ ہو کہ وہ اس منصب جلیلہ پر تقرری کےلئے کسی کی سفارش کر سکے‘ وائس چانسلر نہیں بنے تھے۔ پروفیسر حمید احمد خاں اور ڈاکٹر اشتیاق احمد حسین قریشی ایسے لوگ تو شاید چانسلر بننے کےلئے بھی درخواست دینے کو اپنی توہین سمجھتے اور شاید کسی بھی جامعہ کے سربراہ کو ایسا ہی سمجھنا چاہئے مگر ساری زندگی درس و تدریس میں گزارنے اور اپنے اپنے شعبہ میں مہارت حاصل کرنےوالوں نے جب وائس چانسلر کےلئے درخواستیں دینا شروع کر دیں اور پھر نان پی ایچ ڈی کمیٹی پی ایچ ڈی کرنےوالوں کی اہلیت و صلاحیت جانچنے لگی تو ایسے میں درخواستیں دینے والے، ایسی کمیٹی کے سامنے پیش ہونےوالے اور پھر سیاسی بنیادوں پر وائس چانسلر بننے والے بھلا کب کسی گورنر کے سامنے لب کشائی کر سکتے ہیں۔ خواہ وہ ملک امیر محمد خاں کی طرح سخت گیر منتظم نہ بھی ہو یا جنرل عتیق الرحمن کی طرح گورنر کےساتھ ساتھ مارشل لاءایڈمنسٹریٹر نہ بھی ہو۔ وائس چانسلروں کی تقرری کےلئے سرچ کمشن میں سید بابر علی کو محض اس لئے گوارا کر لیا جائے کہ انہوں نے LUMS قائم کر کے اس کو معیاری درسگاہ بنا دیا تو بھی یہ سوالیہ نشان رہے گا۔ سرتاج عزیز نے تو جس شعبے میں قدم رکھے وہ تباہ کر کے رکھ دیا۔ وزیر خزانہ بنے تو فارن کرنسی اکاﺅنٹ منجمد کر کے معیشت تباہ کی۔ وزیر خارجہ بنے تو پاکستان کو تنہا کرا دیا۔ ان کو اس کمیٹی میں شامل کر کے پاکستان کے اس پڑھے لکھے کی توہین کی گئی۔ سیکرٹری تعلیم پر اٹھارہ گریڈ کے افسروں کے قابض ہونے اور معتبر ہو کر اپنے اساتذہ بلکہ انکے بھی اساتذہ کی بطور وائس چانسلر تقرری شہباز شریف کی حکومت کا انوکھا کارنامہ ہے۔
بہرحال یہ منصب جس طرح بے وقار ہوا اس میں اس طریق کار کو قبول کر کے وائس چانسلر بننے والوں کی اکثریت شامل ہے۔ اسکے باوجود آج بھی کچھ لوگ اہل علم میں سے ایسے ہیں جو ایسی کمیٹیوں کو چنداں اہمیت نہیں دیتے۔ اردو کے نامور استاد محقق اور بہاﺅالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد کو اس کمیٹی نے وائس چانسلر کےلئے انٹرویو کےلئے بلایا وہ اوساکا یونیورسٹی جاپان میں تھے۔ انہوں نے کسی ایسی کمیٹی کے سامنے آکر پیش ہونے سے معذرت کر دی اور تجویز کیا کہ ٹیلیفون پر ہی جو پوچھنا ہے پوچھ لیا جائے۔ یہ تجویز کسی کو پسند آگئی اور باغیوں کی انا کے مقابلے میں اسے پذیرائی ملی۔
ڈاکٹر انوار احمد سے پوچھا گیا تو انہوں نے صرف بہاﺅالدین ذکریا یونیورسٹی میں وائس چانسلر بننے کی خواہش کیوں ظاہر کی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ایک تو میں وہاں کافی عرصہ رہا، ہر ایک کو جانتا ہوں، یونیورسٹی کو کسی طرح سنوارا جاسکتا ہے اس کےلئے میں ٹیم بنا سکتا ہوں۔ دوسرے ایچ ای سی کے مخدوش یا غیرمحفوظ مستقبل کے پیش نظر یونیورسٹی میں وسائل بڑھانے اور اخراجات کم کرنے کے حوالے سے میرا ذہن بہت واضح ہے جس کی یونیورسٹیوں کو اب ضرورت پڑےگی۔ (جاری)
ڈاکٹر انوار احمدکی باتوں میں وزن تھا۔ ان کا وژن تھا مگر ان کا انٹرویو ٹیلی ویژن پر لینے کےلئے آمادہ کرنے والا رکن دوسرے ارکان کی اناﺅں کے سامنے نہ ٹھہر سکا اور ڈاکٹر انوار احمد کے منصوبوں کی تکمیل ہوتے دیکھ کر انہیں اس منصب کےلئے نہ چنا گیا۔ وہ وائس چانسلر بن کر بہاﺅالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان کو پاکستان کی نمبر 1 جامعہ بنا دیتے مگر وہ شاید کسی وزیراعظم یا چانسلر کی مداخلت قبول نہ کرتے اور جنرل عتیق الرحمن کے وائس چانسلر کی خوبیوں کو عملی شکل میں سامنے رکھتے۔
جنرل عتیق الرحمن مغربی پاکستان کی ساری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں سے ملاقات اور یونیورسٹیوں کے حالات جاننے کے بعد جہاں ایک طرف پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر علامہ علاﺅالدین صدیق کا ایک واقعہ افسوس کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:
Another Vice Chancellor who was well known as an Islamic Scholar and whose lecture on Islam even. I remember to this day, told me that he had to put his wife and daughters in one room when some students bursts into home as he feared these his family would be molested. His faith though firm, was shaken. This was the ghastly atmosphere in which some Vice Chancellords had to live.
اس افسوسناک اور شرمناک واقعہ اور بہت ہی نامناسب ماحول کے ذکر اور ڈاکٹر اشتیاق قریشی ایسے خوددار وائس چانسلروں سے رابطے کے بعد جنرل عتیق الرحمن لکھتے ہیں۔
In my opinion Vice Chancellor should be chosen for their administrative powers and strong personaliteis. After that the Chancellor or anybody else for that matter should not be allowed to interfere at all. Vice Chancellor should use the powers of rustication much more than they do and get rid of those students and teachers who do not want to work. Achievements in the Scholastic field must be kept upper most. However the participation of the students in all matters that concern them directly must be ensured. All \\\'sifarishes\\\' from politicians and others should be routed to the Chancellor for his comments even if these are verbal.
وائس چانسلروں کی تقرری کے بارے میں پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے۔ ریٹائرمنٹ کے قریب یا ریٹائر ہونے کے بعد یونیورسٹی پروفیسروں سے درخواستیں مانگنا اور ان کو کسی سرچ کمیٹی کے سپرد کر کے انٹرویو کرانا ان اساتذہ کی توہین ہے جو عہدے کی خاطر یہ نظرانداز کر جاتے ہیں۔