پاک وطن سے محبت

Jul 27, 2012

مکتوب فرانس ۔۔۔ صاحبزادہ عتیق الرحمان
محترمہ آصفہ ہاشمی ایک حساس دل رکھنے والی پاکستانی خاتون ہیں اور فرانس میں مقیم ہیں۔ پاکستان سے انکی محبت ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ ایک فرنچ این جی او سے وابستہ ہیں ۔پاکستانی اور دیگر ممالک کی خواتین جن کو فرانس میں امیگریشن، فرنچ زبان، روزگار اور دیگر مسائل کا سامنا ہے ان کی مدد کرتی ہیں۔اس پر آشوب دور میں جب لوگ پاکستان کا نام لیکر اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں یا پاکستان سے محبت کے کھوکھلے دعوے صرف اپنی شہرت اور ذاتی مفادات کے لئے کئے جاتے ہیں۔ محترمہ آصفہ ہاشمی جیسی خواتین کا دم غنیمت ہے کہ جن کا پاکستان سے لگاو¿ اور پاکستان سے پیار مثالی ہے،انکی تحریروں میںپاکستان کے نام کے پیچھے اپنی ذات کی پروجیکشن نہیں ہوتی بلکہ وہ دیار غیر میں رہتے ہوئے بھی پاکستان پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے پر آمادہ ہیں،وہ اپنی تحریروں میں ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لئے قصیدہ خوانی نہیں کرتیں بلکہ پردیس میں مقیم پاکستانیوں کے ان مسائل کو احاطہءتحریر میں لاتی ہیںکہ جو مسائل ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہورہے ہیں۔انکی مندرجہ ذیل تحریر بھی پردیس میں مقیم پاکستانی خواتین،انکی پاکستان اور اپنے والدین سے انمٹ پیار اور دوری کے ان لمحوں کی کہانی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتے اور درد کی کسک بن کر رگوں میں اتر جاتے ہیں۔ نوائے وقت کے قارئین کے لئے محترمہ آصفہ ہاشمی کی تحریر حاضر ہے۔
میرے محبوب وطن تجھ پہ اگر جان ہو نثار
میں یہ سمجھوں گی ٹھکانے لگا سرمایہ تن
مجھے ادھر پیرس میں رہتے ہوئے پچیس سال ہو گئے عمر کا ایک طویل سفر طے کر لیا جب آئی تھی تو عمر بہت کم تھی بہت ہی حسین خواب آنکھوں میں سجائے پردیس آئی ۔ پیرس کا نام تو ویسے بھی بڑا پر کشش ہے اسے یورپ کا دل کہا جاتا ہے اس کا نام سن کر ہی حسین خواب خود ہی آنکھوں میں آنے شروع ہو گئے۔جب پتہ چلا کہ شادی کے فوراً بعد پیرس شفٹ ہونا ہے ، تو مجھے بی اے کے پیپرز کی بھی فکر نہیں رہی۔ مجھے جاگتے میں بھی پیرس کے خواب آرہے تھے اس زمانے میں تین ماہ میں ہی امیگریشن ہو جاتی تھی میں اپنی بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔ماں باپ بہن بھائی سب کو چھوڑ کر یورپ کے دل پیرس میں آ گئی۔ ہماری رہائش پیرس میں تھی دو کمروں کا ایک چھوٹا سا فلیٹ تھا پہلا دِن تو بہت اچھا گزراایک ماڈرن شہر میں آنے کی خوشی میں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا ایک ہفتہ تو ہم دونوں نے گھوم پھر کے گزارا پھر وہ اپنی مزدوری پر جانے لگے۔ اب دھیرے دھیرے یہ فلیٹ اور تنہائی مجھے کھانے کو دوڑنے لگی۔ پاکستان کا چھوٹا سا گھر جس میں صحن تھا اف کتنا یاد آنے لگا تھا پھر کبھی چھوٹی بہنوں کی سرگوشیاں یاد آتیں اور کبھی بھائیوں کی آوازیں مجھے میرے وطن کی طرف کھنچتیں ،جب کھانا تیار کرکے ان کے انتظار میں بیٹھتی تو امی جان کی آواز ستاتی کتنا خیال ہوتا تھا ان کو میرا کہ میں تھک نہ جاو¿ں، ابھی ماں کی یاد سے فارغ نہ ہونے پاتی تو ابا جان کی آواز بے چین کر جاتی۔لے بیٹی جلدی سے سیون اپ پی لے گرمی ہے کالج سے آرہی ہے۔کتنا پیارا پاکستان ہے اڑوس پڑوس والے سبھی یاد آجاتے کتنے پیارے لوگ تھے، ادھر پیرس سب کچھ تھا بہت اچھا کھانا پینا آرام و آسائیش، ہر طرح کی شاپنگ‘ بازار میں کوئی بھی فروٹ کسی بھی موسم میں مل جاتا تھا لیکن وہ ماحول جو میں ہزاروں میل دور چھوڑ آئی تھی وہ پیار جو اپنوں کے ساتھ تھا وہ میری روح کو زخمی کر رہا تھا،میں تمام اپنوں کی یادوں کو ساتھ لے کر بس ایک امید کے سہارے زندگی کے دن بس گذار ہی رہی تھی۔اب تو بچے بھی ہو ںگے اور بچوں کی وجہ سے مصروفیت بہت بڑھ گئی اب یادیں کچھ کم ہو گئیں ان یادوں کی جگہ اب بچوں نے لے لی ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب اسی ماحول میں ڈھلنا شروع ہو گئی۔دن مہینے سال کیسے گزر گئے پتہ ہی نہ چلا‘ وہ والدین جنہوں نے مجھے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تھا آج بوڑھے ہو چکے تھے انہیں میری ضرورت ہے لیکن میرے سامنے بچوں کا مسئلہ ہے بچوں کا یہاں پیرس دل لگ گیا ہے وہ یہاں سے جانا نہیں چاہتے میں بچوں کو چھوڑ کر تو پاکستان نہیں جا سکتی ۔ سب بہنیں اور بھائی اپنے اپنے گھر بار کی دیکھ بھال میں لگے ہوئے ہیں ہم میں سے کسی کے پاس والدین کے لئے وقت نہیں۔ ہاں ہم نے ان کو نوکر چاکررکھ دیے ہیںدن کو کوئی نا کوئی بہنوں یا بھائیوں میں سے چکر لگا ہی لیتاہے ہم جاتے توہیں پاکستان لیکن صرف چھٹیوں میں پھر جب ابا جان بیمار ہوئے اور پھر زیادہ ہی بیمار رہنے لگے میں جب پاکستان گئی تو وہ بات بھی نہیں کر سکتے تھے اشاروں سے بات کر رہے تھے اس حالت میں بھی اپنی اولاد کو اپنی شفقت سے نواز رہے تھے۔ جو اولاد موجود نہ تھی اشاروں سے ان کا پوچھ رہے تھے پھر ان کا انتقال ہو گیا، ہم بہنیں اور بھائی پردیسوں میں بٹے ہوئے تھے کوئی آسکا اور کوئی نہیں کسی کو بچوں کی مجبوری اور کوئی سسرالیوں کے مسائل سے دوچار تھے وطن کی خوشبو کا ہم پر جو قرض ہے وہ تو اپنی جگہ لیکن میں آج اتنے برس گزر گئے اس یورپ میں جب پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو مجھے سکون نہیں آتا‘ کیا ہمارے والدین کا ہم پر حق نہیں تھا ہمیں چاہئے تھا کے اگر پردیس آنے کی مجبوری تھی بھی تو ہمیں ایک مقررہ مدت کے بعد وطن واپس جانا چاہئے تھا ہمارے والدین کو صرف جنازے یا شدید بیماری کے وقت ہی ہماری ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کو ہمارے ساتھ دکھ سکھ کرنا ہوتا ہے روزمرہ زندگی میں ان کو ہمارے ساتھ کی بے حد ضرورت ہے اگر ہم ان کو اپنے پاس بلانا چاہیں تو وہ یہاں آکر نہیں رہتے کیوں کہ ان کو اپنی مٹی سے پیار ہے اور ان کو اپنے وطن کی قدر معلوم ہے انہوں نے بے مثال قربانیان دے کر یہ وطن حاصل کیا تھا میری امی جان آج بھی بیٹھ کر اپنے نواسوں اور پوتوں کو وہ کہانیاں سناتی ہیں جو قیام پاکستان کے دوران پیش آئیں۔ جب تحریک پاکستان کی بات کرتی ہیں تو ان میں وہی گرمجوشی اور آنکھوں وہی انقلابی جذبہ چمک رہا ہوتا ہے جس کی آج ہمیں اور ہمارے بچوں کو ضرورت ہے۔ ہم نے اپنی زندگی کے جو ایام گزار لئے وہ اب واپس نہیں آسکتے لیکن اب بھی وطن کو اور ہمارے بزرگوں کو ہماری ضرورت ہے ہمارے اتحاد کی اور آج پھر پاک وطن کو تحریک پاکستان جیسے ولولے اور جذبے کی ضرورت ہے.... آئےں سب مل کر پاکستان کو بچائیں ان درندوں سے کافروں سے۔ کرپٹ اور بدقماش حکمرانوں سے۔ بے ایمان اور منافع خور تاجروں سے۔
ہم نے اپنی زندگی کے قیمتی سال ادھر ضائع کر دئیے اور کیا پایا روح کے زخم اور ضمیر کی چبھن.... ہمارے بچے پاکستان کا کل ہیں۔ انہوں نے باگ دوڑ سنبھالنی ہے اور اگر خدانخواستہ کچھ الٹا سیدھا ہو گیا تو ہم کیا جواب دیں گے اپنے بچوں کو.... اور کیا جواب دیں گے حشر کے دن ان لوگوں کو جنہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر پاکستان حاصل کیا.... جو کہانی میں نے سنائی یہ کم و بیش سب پردیسیوں کی کہانی ہے۔ سب کے دل کی آواز ہے۔ ہر باشعور اور درد دل رکھنے والے کی سوچ ہے۔ وطن سے دور رہ کر وطن کی مٹی سے پیار کرنے والوںکی خواہش ہے کہ پیارے وطن سرزمین پاک کو بچانے میں ہم سب اپنا کردار ادا کریں ہم سب کی واحد پہچان پاکستان ہے اور انشاءاللہ جب ہم سب مل جایئں گے اور جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلیں گے تو کوئی وطن عزیز کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ پاکستان زندہ باد

مزیدخبریں