مہدی حسن نے غزلوں اورگیتوںکا تاج محل تعمیر کیا

Jul 27, 2012

صحرا نامہ ۔۔۔ عبدالشکور ابی حسن
پاکستان کلچرل سوسائٹی 2004ءمیں اپنے قیام سے اب تک کویت میں پاکستانی کلچر کے فروغ کیلئے کام کر رہی ہے، تنظیم کے بانی و صدر سائیں نواز کی فطرت میں تھکاوٹ کا عنصر سرے سے موجود نہیں، موسیقی سے خاصا لگا¶ رکھتے ہیں، وہ ایک عرصہ تک پاکستان کے چاکلیٹ ہیرو وحید مراد کی برسی باقاعدگی سے مناتے رہے۔ استاد حامد علی، ترنم ناز، اشتیاق بشیر اور اکرام مہدی کے ساتھ یادگار تقاریب منعقد کر چکے ہیں۔ شہنشاہ غزل مہدی حسن کے انتقال پر دنیا بھر کی طرح کویت میں بھی شائقین موسیقی کی آنکھیں اشکبار تھیں، اس درد کو سمیٹنے کے لئے انہوں نے فوراً ہی مہدی حسن کی یاد میں ایک شام منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ تقریب 22 جون کو منعقد ہونا تھی مگر پیپلز پارٹی کی سابق وزیر اطلاعات محترمہ فوزیہ وہاب کے انتقال کے باعث تقریب ایک ہفتہ کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ شام غزل 29 جون کو منعقد ہوئی جس کی صدارت سفارتخانہ پاکستان کے ڈپٹی چیف آف مشن حسن وزیر نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی میں ملک نور،پاکستان بزنس کونسل کوےت کے صدر محمد عارف بٹ، پاکستان پیپلزپارٹی کوےت کے صدرعتیق عدنان اور ملک اشتیاق شامل تھے، ان کے علاوہ کویت میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی جن نمایاں شخصیات نے شرکت کی ان میں ملک حبیب الرحمٰن اعوان،احتشام اﷲ دتہ، ارشد نعیم چوہدری، رانا منیر احمد، رانا اعجازحسین ایڈووکیٹ، محمد امین، محمد ایوب بھٹی، غلام حیدر شیخ، عرفان ناگرہ، محمد حنیف قریشی، رجب خان عباسی، بشیر خان، مرزا عبدالقدوس اور دیگر احباب شامل تھے۔ پروگرام کا آغاز تقریباً وقت پر ہوا۔ کمپیئرنگ کے فرائض ریڈیو کویت اردو سروس کے انا¶نسر عبداﷲ عباسی نے انتہائی احسن طریقے سے انجام دیئے۔ عظیم گلوکار مہدی حسن کی یاد تازہ کرنے کے لئے مقامی گلوکار نیر کو اسٹیج پر بلایا گیا، انہوں نے مہدی حسن کا مشہور گیت ”رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے“۔ اور غزل ”غنچہ شوق لگا ہے کھلنے“ گا کر شرکاءکی توجہ حاصل کر لی۔ ان کے بعد ممتاز پاکستانی گلوکار امجد احمد نے جنہیں کویت کا مہدی حسن بھی کہا جاتا ہے انڈین گلوکارہ نیلما کے ساتھ تین دوگانے اور ایک سولو گیت پیش کیا۔ نیلما اکثر پاکستانی پروگراموں میں آواز کا جادو جگاتی ہیں، وہ میڈم نور جہاں کے گائے ہوئے گیت بڑی خوبصورتی سے پیش کرتی ہیں حالانکہ وہ اردو اور ہندی سے بالکل ناآشنا ہیں۔ وہ ان گیتوں کو انگریزی میں لکھ کر بھرپور پریکٹس کرتی ہیں اور تلفظ کا خاص خیال رکھتی ہیں۔انہوں نے امجد احمد کے ساتھ درج ذیل دوگانے پیش کئے۔
آپ کو بھول جائیں ہم اتنے تو بے وفا نہیں
ہے رات رات بھر امجد نے شرکاءکی فرمائش پر مہدی حسن کی ایک کلاسیکل غزل ”وہ دل نواز ہے لیکن نظرشناس نہیں“ پیش کر کے بھرپور داد سمیٹی۔ محفل کا ٹمپو برقرار رکھنے کے لئے کویت میں مقیم معروف فنکار، جمیل جمی کو اسٹیج پر بلایا گیا جنہیں موسیقی کی ہر محفل کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے، انہوں نے مہدی حسن کے دو مشہور فلمی گیت رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ، اور ”مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو“ پیش کر کے محفل کو چار چاند لگا دیئے۔ ان کے بعد ایک شوقیہ گلوکار طارق اقبال کو گلوکاری کی دعوت دی گئی، انہوں نے مہدی حسن کا مشہور فلمی گیت ”دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں“ پیش کیا۔ موسیقی کی کسی محفل میں یہ ان کی پہلی کاوش تھی، اس کے باوجود انہوں نے شرکاءسے خوب داد سمیٹی، ان کے بعد استاد حمید علی کو فن کے مظاہرہ کے لئے اسٹیج پر بلایا گیا، وہ طبلہ پر کویت کی سطح پر کوئی ثانی نہیں رکھتے، پاکستان کے تقریباً تمام بڑے گلوکاروں کے ساتھ پرفارم کر چکے ہیں،گلوکاری کے شعبہ میں بھی خود کو منوا چکے ہیں۔ انہوں نے مہدی حسن کے دو مشہور گیت ”جب کوئی پیار سے بلائے گا تم کو ایک شخص یاد آئے گا“ اور ”یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی“ پیش کر کے سماں باندھ دیا۔ ان کے بعد سینئر گلوکار ظفر غوری کو اسٹیج پر بلایا گیا انہوں نے سب سے پہلے کلچرل سوسائٹی کے صدر سائیں نواز کو مہدی حسن کی یاد میں تقریب منعقد کرنے پر زبردست خراج تحسین پیش کیا، انہوں نے شہنشاہ غزل کے تین مشہور فلمی گیت ”ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا‘ زندہ ہیںکتنے لوگ محبت کئے بغیر اور مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو، پیش کر کے شرکائے تقریب کو محظوظ کیا۔اس گیت کے بعد کھانے کا وقفہ تھا بعدازاں پروگرام کا دوبارہ آغاز بھی ظفر غوری کے ہی گیت ”دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں“ سے ہوا۔
اس کے بعد ناظم تقریب عبداﷲ عباسی نے تقریب کے اسپانسر اور مہمان خصوصی عتیق عدنان کو دعوت خطاب دی۔انہوں نے کہا کہ یہ محفل اس شخص کے لئے سجائی گئی جسے شہنشاہ کا خطاب دیا گیا۔ ایک شہنشاہ نے اپنی بیوی کی محبت میں تاج محل بنوایا تھا جو آج بھی محبت کی ایک عظیم یادگار کے طور پر کرہ ارض پر موجود ہے، غزل کے اس شہنشاہ نے1952ءسے 2000ءتک غزلوں اور گیتوں کا تاج محل تعمیر کیا جو ایک یادگار کے طور پر ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو چکا ہے، لیکن کسی نے اس کے لئے محل نہیں بنایا، وقت ثابت کر دے گا کہ دنیا میں کوئی دوسرا مہدی حسن پیدا نہیں ہوا، انہوں نے کہا کہ اب پہلے جیسے لکھنے والے بھی نہیں، اب کوئی فیض احمد فیض ہے نہ قتیل شفائی، اب سالوں بعد ہی کوئی اچھا گیت سننے کو ملتا ہے۔ انہوں نے اتنی شاندار محفل منعقد کرنے پر سائیں نواز کا شکریہ ادا کیا۔
تقریب کے دوسرے مہمان خصوصی ملک نور نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ عتیق عدنان کے خیالات کی تائید کرتے ہیں۔ مہدی حسن کے فن کے بارے میں لوگ کہتے رہیں گے، وہ دعا کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ وہ پاکستان کلچرل سوسائٹی کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جنہوں نے اتنی شاندار محفل برپا کی، تقریب کے ایک اور اسپانسر اور مہمانِ خصوصی محمد عارف بٹ نے کہا کہ وہ پاکستان کلچرل سوسائٹی کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور سائیں نواز کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جن کی کاوشوں سے ایسی شاندار محفل کا انعقاد ممکن ہوا،وہ مقامی فنکاروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس عظیم فنکار کی یادگار غزلیں اور گیت پیش کئے۔انہوں نے اعلان کیا کہ پاکستان کلچرل سوسائٹی آئندہ جو بھی پروگرام پیش کرے گی وہ سائیں نواز کے ساتھ ہوں گے اور بھرپور تعاون کریں گے۔ تقریب کے صدر سفارتخانہ پاکستان کے ڈپٹی چیف آف مشن حسن وزیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ پاکستان کلچرل سوسائٹی کے صدر سائیں نواز اور تمام فنکاروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، وہ ایسی محافل کے انعقاد پر خوشی محسوس کرتے ہیں، ابھی تک کویت میں کسی اور نے ایسی محفل منعقد نہیں کی، انہوں نے اسپانسر کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔
اس کے بعد پاکستان کلچرل سوسائٹی کے صدر سائیں نواز نے تقریب کے صدرپاکستان سفارت خانہ کے ڈپٹی آف دی مشن حسن وزیر اور مہمان خصوصی عتیق عدنان، محمد عارف بٹ، ملک نور اور ملک اشتیاق کو یادگار کے طور پر سندھی اجرک پہنائیں،آخر میں سائیں نواز نے اپنے الوداعی خطاب میں حسن وزیر اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے قیمتی وقت نکال کر تقریب میں شرکت کی۔انہوں نے اسپانسرز و مہمان خصوصی محمد عارف بٹ، ملک نور، ملک اشتیاق اور عتیق عدنان کا بھی شکریہ ادا کیا، آخر میں حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تقریب کے اختتام کا اعلان کیا۔ اس طرح یہ تقریب رات گئے کئی خوشگوار یادیں لئے اختتام کو پہنچی۔

مزیدخبریں