پی پی پی کے سندھی قلعہ پر میاں نواز شریف کے پے در پے حملوں کے بعد جناب آصف علی زرداری نے کراچی کیمپ آفس میں ڈیرے لگائے رکھے۔ انہوں نے لیاری پر خصوصی توجہ دینی شروع کر دی ہے تاکہ انتخابات سے پہلے لیاری کے ووٹ بنک کو راضی کیا جا سکے۔ زخم تو گہرے ہو چکے دیکھئے صدر پاکستان ان کو کیسے مندمل کرتے ہیں۔ جناب الطاف حسین کے مشورے پر انہوں نے ایک بار پھر گول میز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے ان کی پہلی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی تھی اس بار یہ کوشش ایم کیو ایم کرے گی جس کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ صدر پاکستان نے کہا ہے کہ کراچی میں بدامنی کسی صورت برداشت نہیں، امن خراب کرنے والوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے۔ سندھ میں ایسا بلدیاتی نظام تشکیل دیا جائے جس سے عوام کی مشکلات حل ہوں۔ لیاری میں جاری ترقیاتی سکیموں پر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے۔ انتخابات چند ماہ دور ہیں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اگلے انتخابات میں کون سی سیاسی جماعتیں حکومت بنائیں گی لہٰذا اس مرحلہ پر گول میز کانفرنس کا جواز نہیں بنتا البتہ اگر نئے انتخابات کے شیڈول اور نگران حکومت کے بارے میں اتفاق رائے کرنا ہو تو گول میز کانفرنس نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے۔ جناب الطاف حسین دنیا کے سیاسی مرکز لندن میں بیٹھے ہیں جہاں پر ان کو پاکستان کے بارے میں وہ خبریں مل رہی ہیں جو صدر پاکستان کو نہیں مل رہیں۔ خفیہ ایجنسیاں خود ان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں تشویشناک خبریں کیوں دیں گی۔ جناب الطاف حسین تشویشناک خبریں سُن کر گول میز کانفرنس کے مشورے دے رہے ہیں اگر مجوزہ کانفرنس کراچی، بلوچستان اور لوڈشیڈنگ کے ایشوز پر کی جا رہی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حکمران اتحادی جماعتوں نے اپنی ناکامی تسلیم کر لی ہے۔ گول میز کانفرنس حکومت کی کھلی ناکامی بلکہ بوکھلاہٹ کاہی اظہار ہوگی۔
پاکستان کی منتخب جماعتیں سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں اور وفاقی حکومتوں میں شامل ہیں۔ ریاست اور آئین کی طاقت ان کے ہاتھ میں ہے اس کے باوجود وہ قومی مسائل حل نہیں کرسکیں۔ گول میز کانفرنس کے بعد ان کو کونسی طاقت حاصل ہو جائے گی کہ جس کو استعمال کرکے اتحادی مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اتحادیوں کے لیے آبرومندانہ راستہ یہی ہے کہ وہ عام انتخابات کا اعلان کر دیں تاکہ نئی منتخب حکومت عوامی مینڈیٹ کو قومی مسائل کو حل کرنے کے لیے استعمال کر سکے جسے اب تک صرف اقتدار میں رہنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ آزاد اور غیر جانبدار مو¿رخ لکھے گا کہ اتحادی حکومت نے آزاد عدلیہ کے فعال کردار کی وجہ سے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ چیف جسٹس پاکستان نے سو¿و موٹو نوٹس لے کر ریاست کو چلایا، نوکر شاہی کو الرٹ رکھا اور قانون کی عملداری قائم کرنے کی کوشش کی۔ جمہوری سسٹم کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے بصیرت کا مظاہرہ کیا۔ صدر پاکستان اور وزیراعظم پاکستان میں سے کسی ایک نے بھی کسی کرپٹ اور قانون شکن کے خلاف انضباطی کارروائی نہ کی بلکہ ان کی پشت پناہی کی گئی۔ اتحادی حکمران اگر جمہوریت کے ساتھ مخلص ہیں تو وہ اداروں کے ساتھ ٹکرانے اور گول میز کانفرنس کا سہارا لینے کی بجائے عام انتخابات کا شیڈول 14 اگست کو جاری کر دیں تاکہ جمہوریت کا تسلسل جاری رہ سکے۔ نئے انتخابات کا اعلان صدر پاکستان آصف علی زرداری کوکرنا ہے۔ حکومت نے پانچ بجٹ پیش کر لیے ہیں۔ ملتان کے ضمنی انتخاب کے بعد اینٹی بھٹو عناصر سرگرم ہو چکے ہیں۔ ٹیکنو کریٹس پر مشتمل دو سال کی عبوری حکومت کے بارے میں افواہیں گرم ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ کا صبر اور حوصلہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ قومی مسائل کا حل صدر پاکستان کے بس کی بات نہیں رہی۔ سیاسی منظر کی تبدیلی قومی ضرورت بن چکی ہے جو صرف اور صرف انتخابات کے ذریعے ہی ہونی چاہیئے۔ موجودہ حکومت کے خلاف چارج شیٹ اس قدر سخت ہے کہ آزاد عدلیہ میں اس کا دفاع ممکن نہ ہوگا اور عدلیہ ”ملک کے وسیع تر مفاد“ میں کئے گئے اقدام کو جائز قرار دے دے گی۔
جمہوریت کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مقابلہ کرنے کا آپشن صرف اور صرف ایک ہے کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری اعلان کر دیں کہ 14 اگست کو نئے انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا جائے گا۔ اسٹیبلشمینٹ کی خواہش یہ ہے کہ ماورائے آئین اقدام سے پہلے موجودہ حکومت کو پانچ سال کی مدت پوری کر لینے دی جائے جو چند ماہ باقی رہ گئی ہے تاکہ وہ سیاسی شہید نہ بن سکے۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری کو علم ہے کہ جنرل ضیا¿الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ اس وقت الٹ دیا تھا جب 5 جولائی کو پی پی پی اور پی این اے کے درمیان طے پانے والے معاہدہ پر دستخط ہونے والے تھے لہٰذا دانشمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ گول میز کانفرنس کی بجائے نئے انتخابات کا اعلان کر دیں۔ اس اعلان کے بعد عدلیہ اور انتظامیہ کی کشیدگی بھی ختم ہو جائے گی اور غیر سیاسی قوتوں کے منصوبے بھی ناکام ہو جائیں گے۔ صدر آصف علی زرداری نئے انتخابات کے بعد بھی صدر پاکستان رہتے ہوئے آئینی مدت پوری کر لیں گے۔ اگر اتحادی جماعتیں نئے انتخابات جیت گئیں تو جناب آصف علی زرداری ایک اور ٹرم کے لیے صدر منتخب ہو سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں انہیں نہ صرف ایوان صدر سے نکلنا پڑے گا بلکہ ان کا اور ان کے رفقاءکا کڑا احتساب بھی کیا جائے گا۔ ترپ کا انتخابی کارڈ جناب آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اسے موقع کے مطابق کھیلتے ہیں یا یہ فیصلہ کن کارڈ ان کے ہاتھ میں ہی رہ جائے گا۔ اگر دوسال کا عبوری سیٹ اپ آیا تو اسے صدر زرداری کی آشیرباد حاصل ہوگی جس کا مقصد مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو اقتدار سے باہر رکھنا ہوگا۔ دو سال کے بعد بلاول بھٹو عمر کے لحاظ سے وزیراعظم منتخب ہونے کے اہل ہو جائیں گے۔ جناب آصف علی زرداری قوم پر رحم کریں اور انتخابات کا اعلان کر دیں۔
تُرپ کا انتخابی کارڈ جناب آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے
Jul 27, 2012