”عمران نواز اتحاد“ وقت کی اہم ضرورت ۔۔۔!

Jul 27, 2012

رائے عامہ یہی پائی جاتی ہے کہ زرداری حکومت کی کرپشن کو اسی صورت میں شکست دی جا سکتی ہے اگر نواز اور عمران میں اتحاد ہو جائے وگرنہ زرداری کی پارٹی پھر جیت جائے گی اور عوام کو مزید پانچ سال زہریلا گھونٹ نگلنا پڑے گا۔ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں سے ناراض لوگ ادھر سے اُدھر جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون سے ناراض اور ناامید کارکن تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں اور تحریک انصاف کے اندرونی مسائل سے دلبرداشتہ کارکن مسلم لیگ نون میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی بھی اپنے لیڈران سے ناراض تھے یا شاید ان کے لیڈران سے بیزار تھے لہٰذا ان حضرات کو بھی مجبوراً تحریک انصاف جائن کرنا پڑی۔ جاوید ہاشمی سے جب میں نے کہا کہ اگر تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون میں اتحاد نہ ہوا تو آصف علی زرداری ایک بار پھر جیت جائےں گے تو ہاشمی صاحب نے بلاتوقف جواب دیا کہ ”پہلے انہیں کون لایا تھا۔“ ان کا اشارہ نواز شریف کی طرف تھا جنہوں نے جاوید ہاشمی کو صدارتی امیدوار نامزد کرنا گوارا نہ کیا کیونکہ ان کی مرضی بھی آصف زرداری کو صدر بنانے میں تھی۔ مگر اس بار زرداری صاحب کو نواز شریف نہیں تحریک انصاف لائے گی۔ زمینی حقیقت یہی ہے کہ تحریک انصاف کا بھاری اکثریت سے جیتنا آسان نہیں اور اس کی وجہ تحریک انصاف کے اندرونی حالات ہیں۔ فیس بُک کے علاوہ بھی ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے جو شاید اسی مقصد کے لئے معرضِ وجود میں لائی گئی تھی۔ سونامی کا جوش اگر دودھ کا اُبال ثابت ہُوا تو پاکستان کے عوام پیپلز پارٹی کے ٹائروں تلے رگڑے جائیں گے۔1997ءمیں پاکستان کے عوام پیپلز پارٹی سے اس لئے نالاں تھے کہ بے نظیر کے شوہر پر کرپشن کے الزامات تھے لہٰذا عوام محترمہ کو ووٹ دینے کے لئے گھروں سے نہیں نکلے چنانچہ میاں نواز شریف آسانی سے جیت گئے مگر 2012ءکی سیاسی صورتحال مختلف ہے۔ آج آصف علی زرداری محترمہ کے شوہر ہی نہیں پاکستان کے صدر اور پارٹی کے مائی باپ بھی ہےں ان کے مدمقابل صرف نواز شریف نہیں بلکہ ایک تیسری پارٹی بھی سونامی بن چکی ہے لہٰذا آصف زرداری کو ہرانا آسان نہیں۔ آصف علی زرداری تما م تر مخالفت کے باوجود گزشتہ چار سال سے صدر ہیں اور تمام تر مسائل کے باوجود عوام نے ضمنی اور سینٹ کے الیکشن میں ان کی پارٹی کو ووٹ دئیے ہیں۔ بعض عوامی حلقوں کی رائے کے مطابق عمران خان نے جو خوشگوار رویہ الطاف حسین کے ساتھ اپنا رکھا ہے اگر وہی سافٹ کارنر میاں نواز شریف کے لئے اختیار کر لیں تو اتحاد کے دروازے کھل سکتے ہیں مگر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ”عمران نواز اتحاد“ جاوید ہاشمی کو سُوٹ نہیں کرے گا لیکن عمران کی نواز سے دوری اس سے پہلے کی ہے۔ اگر معاملہ ذاتی انا تک محدود رہا تو پھر وہی لوگ بازی لے جائیں گے جو سیاست میں انا کے قائل نہیں۔ پیپلز پارٹی نے حکومت قائم رکھنے کے لئے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ قاف سے مخالفت کے باوجود اتحاد کیا۔ مسلم لیگ نون کو شکست دینے کے لئے تحریک
 انصاف کے ساتھ بھی راہ رسم بڑھا رہے ہیں۔ نظریاتی سوچ کا حامل طبقہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کو ایک پلیٹ فارم پر دیکھنا چاہتا ہے۔ عمران خان کا یہ کہنا کہ مسلم لیگ نون میں کرپشن پائی جاتی ہے تو یہی آواز اب تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے بھی سُنائی دے رہی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق تحریک انصاف میں ناپسندیدہ اور کرپٹ افراد کو پارٹی عہدےدار بنایا جا رہا ہے۔ پرانے اور مخلص لوگوں کی جگہ نئے اور مالدار لوگوں کو فوقیت دی جا رہی ہے۔ صرف شاہ محمود قریشی کے پیر خانے کے نذرانوں کا حساب مانگ لیا جائے تو پاکستان میں نذرانوں پر بھی ٹیکس عائد ہو جائے۔ تحریک انصاف جب تک ”تبدیلی“ کے نعرہ پر چلتی رہی، صاف ستھری تھی مگر جس روز سے ”سونامی“ بنی ہے نظم و ضبط، اعتماد، اخلاص، سب کچھ بہا کر لے گئی ہے۔ اندرون و بیرون ملک پارٹی میںہجوم بڑھتا جا رہاہے جبکہ نظام بے ترتیب ہوتا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کے چند کارکنوں نے بتایا کہ انہوں نے پہلی بار کوئی سیاسی پارٹی جائن کی تھی، خوب محنت کی، بہت کچھ سیکھا بھی مگر جب سونامی کا بہا¶ تیز ہُوا تو انہیںبھی بہا لے گیا اور جب انہیں کوئی کنارہ نہ ملا تو وہ لوگ پارٹی سے الگ ہو گئے۔ گو کہ دیہاتوں میں بھی عمران خان کی آواز پہنچ چکی ہے اور لوگ تحریک انصاف میں شامل ہونا چاہتے ہیں مگر بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں جو تحریک انصاف کی بدنظمی سے دلبرداشتہ ہو کر یا تو پارٹی چھوڑ رہے ہیں یا پھر مسلم لیگ نون میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ عمران خان کے حالیہ دورہ یورپ کے دوران پارٹی کارکنوں کے ساتھ رویہ کی رپورٹ بھی موصول ہوتی رہی۔ تحریک انصاف کے پرانے کارکنوں نے شکوہ کیا کہ خان صاحب یورپ آئے مگر انہوں نے کارکنوں سے یہ کہہ کر ملاقات سے منع کر دیا کہ وہ تھکے ہوئے ہیں جبکہ کارکنوں کا کہنا تھا کہ ہم دور دراز شہروں سے صرف خان صاحب سے ملنے آئے تھے۔ یہ شکایت بھی عام ہے کہ خان صاحب پارٹی کے اندرونی مسائل، بدنظمی اور پرانے اور نئے کارکنوں کے بیچ بدمزگی کو رفع کرنے میں ناکام ہیں یا شاید ان سے سونامی سنبھالا نہیں جا رہا۔ یورپ سے تحریک انصاف کے ایک پرانے اور مخلص کارکن نے بتایا کہ اس نے مسلم لیگ نون چھوڑ کر تحریک انصاف جائن کی، دن رات کام کیا مگر نئے آنے والے نوجوانوں نے پارٹی میں بدنظمی اور بداعتمادی کی وہ فضا قائم کر دی جس نے انہیں پارٹی چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ بعض شہروں میں پارٹی کی صدارت ناپسندیدہ افراد کے ہاتھوں میں سونپی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے پرانے اور مخلص ساتھی مسلم لیگ نون کی طرف لوٹ گئے ہیں۔ یورپ میں خان صاحب آرام کرتے رہے اور میاں نواز شریف یورپ پہنچے تو خان صاحب سے ناراض لوگ میاں صاحب سے بغلگیر ہوگئے۔ ادھر سے اُدھر آنیاں جانیاں کی صورتحال ایک دو کارکنوں کی نہیں بلکہ لاتعداد کہانیاں ہیں۔ عوام کے پاس سوالات بے شمار ہیں اور سیاسی رہنماﺅں کے پاس جوابات لاتعداد ہیں۔ عمران خان جو الطاف حسین کے لئے سافٹ کارنر اور نواز شریف کے لئے تیر کمان رکھتے ہیں، انہیں انتخابات کے نتائج سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ جیت گئے تو زندہ باد ہار گئے تو خیرباد ہے ۔۔۔! نقصان تو پاکستان کا ہو گا ۔۔۔! میاں صاحب نے عمران کے برعکس جو کام یورپ میں کیا ہے وہی کام وہ پاکستان میں نہیں کر رہے۔ ملتان کا الیکشن گیلانی کی جھولی میں کس خوبصورتی سے ڈالا ہے اور کوئی بظاہر شکریہ بھی ادا نہیں کر رہا!

مزیدخبریں