بیک چینل ڈپلومیسی۔۔۔ ”بچ موڑ توں!“

بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کےلئے بیک چینل ڈپلومیسی دوبارہ شروع کر دی۔ نواز شریفپاکستان سے دوستی مزید مستحکم ہو گی۔ برطانوی وزیرخارجہ“”نئے بلدیاتی نظام کے لئے تجاویز منظور‘ شہباز شریف‘ ولیم ہیگ میں تجارتی‘ اقتصادی تعلقات بڑھانے پر اتفاق“یہ دونوں سرخیاں جو درج کی گئی ہیں انہیں پڑھ کر یک گونہ خوشی ہوتی ہے مگر کیا کیا جائے کہ ہمارا پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا جو کچھ بھی بیان کر رہا ہے اسکے ساتھ ساتھ ماضی کے حالات اور تجربات پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے یا اس موضوع پر تھوڑا بہت غور کیا جائے تو یہ شعر زبان پر آ جاتا ہے ....
تیری دعا ہے کہ تیری آرزو ہوپوری ۔۔۔ میری دعا ہے کہ تیری آرزو بدل جائے
پاک بھارت تعلقات میں خرابی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تقریبا" سارے پاکستانی یہی سمجھتے ہیں اور اسی خوف میں مبتلا ہیںکہ ....عساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میںقیام پاکستان کے ایک سال ایک ماہ بعد بانی پاکستان حضرت قائداعظم‘ دنیا سے چلے گئے تو لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے جو تعزیتی بیان دیا تھا اس سے تب کے حالات اور انگریز کی نیت سامنے آگئی تھی۔ تعزیتی بیان دیتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے کہا تھا کہ اگر موصوف کو معلوم ہوتا کہ قائداعظم نے اس بیماری کی وجہ سے (جو ان کے دیانتدار ڈاکٹر نے چھپا رکھی تھی) اتنی جلدی رحلت کر جانا ہے تو انڈیا سے برطانیہ عظمی جانے اور اسکی تقسیم کرنے کا پروگرام ملتوی کر دیتا۔قیام پاکستان کے بعد حضرت قائداعظم اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان ہندو کی عیاری اور گورے کی مکاری سے خوب آگاہ تھے۔ اسی سبب قائداعظم نے دم آخر تک کشمیری آزادی کو پاکستانی کی آزادی کے دن سے ہمیشہ اہم جانا اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہید لیاقت علی خان قوم کو سفارتی زبان میں اپنے مکے (Punch) کے ذریعے سے جو پیغام دے رہے تھے قوم آج بھی اس سے پوری طرح آگاہ ہی نہیں بلکہ اپنے لئے مشعل راہ اور رہنما اصول بھی سمجھتی ہے۔ ورنہ تو فیلڈ مارشل ایوب خان نے پاکستان کے دریاﺅں کو بھارت کیساتھ معاہدہ کے بعد مشترکہ دفاع تک تجاویز دے دیں تھیں۔اسکے بعد جنرل یحییٰ خان جیسے مدہوش انسان نے میرے اور آپ کے پاکستان پر قبضہ کیا تو اس نے بھی بھارت کے ایک سکھ مندوب کو دیکھ کر اپنی تمام تر لبرل ازم کے باوجود اپنے کچھ جذبات کا اظہار کر دیا تھا بات لیاقت علی خان کے مکا(punch) کی ہوئی تھی تو یاد آیا کہ جنرل پرویز مشرف بھی جمہوری ایوانوں میں پاکستانیوں کو دیکھ کر مکے دکھایا اور لہرایا کرتے تھے لیکن یہ بات اتنی کرخت اور طویل ہے جو ان چند صفحات میں بیان نہیں ہو سکتی۔ اسی سبب مختصرا“ یہ واقعہ سنانا چاہتے ہیں کہ ذاتی ممدوح جنرل ضیاءالحق اپنے دور اقتدار میں جب بھارت یاترا پر جا رہے تھے تو انہوں نے مرد مجید جناب مجید نظامی سے ساتھ چلنے کیلئے کہا تھا جس کا جواب محترم نظامی نے یہ دیا تھا جنرل صاحب اگر آپ ٹینک پر سوار ہو کر بھارت جا رہے ہیں تو میں ساتھ جانے کو تیار ہوں‘ ورنہ نہیں‘تو کھلکھلا کہ ہنسنے والے جنرل ضیاءالحق کا منہ اس اچانک جواب کے بعد حیرانی کے سبب کھلا کا کھلا رہ گیا تھا‘ یہ بیک چینل ڈپلومیسی‘ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کی باتیں ہم پاکستانیوں نے بہت دیر سے سنی اور بھگتی ہوئی ہیں‘ اسی سبب ہم جانتے ہیں کہ پالیسیاں بنانے والوں کو کیسے بیک ٹو دیس یا بیک ٹو پولین آنا ہی پڑتا ہے‘ میاں نوا ز شریف صاحب سے ان حالات میں یہی درخواست کی جا سکتی ہے کہ ....ع
بھاگ ان بردہ فروشوں سے‘ کہاں کے بھائی
اور آخر میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ”بچ موڑ توں“ورنہ میاں صاحب یہ نہ ہوتیری بھی داستاں تک نہ ہو گی‘ داستانوں میں“

ای پیپر دی نیشن