غزوہ بدر

غزوہ بدر

علامہ منیر احمد یوسفی
ہجرت کے دوسرے سال سترہ رمضان المبارک کو غزوہ بدر کا واقعہ پیش آیا۔ اِس کو غزوہ بدرِ عظمیٰ اور غزوہ بدرِ کبریٰ بھی کہتے ہیں۔ بدر ایک بستی کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے قریباً 120 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ بستی بدر بن حارث سے منسوب ہے جس نے یہاں کنواں کھودا تھا یا بدر بن مخلد بن نصر بن کنانہ سے منسوب و مشہور ہے جس نے اِس جگہ پڑاو¿ کیا تھا۔ بعض کہتے ہیں‘ وہاں ایک بوڑھا شخص مدتوں سے رہتا تھا جس کا نام بدر تھا‘ اِس بنا پر اِس بستی کو اِسی کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔
یہ بہت عظیم غزوہ تھا جس کے ذریعے دینِ اسلام کو چار چاند لگے۔ اِس غزوہ نے حق و باطل کے درمیان فرق و امتیاز کر دیا۔ اِس لئے اِس غزوہ کے دن کو ”یوم الفرقان“ بھی کہتے ہیں جیسا کہ قرآنِ مجید میں بیان ہے:۔ وَمَآ اَن±زَل±نَا عَلٰی عَب±دِنَا یَو±مَ ال±فُر±قَانِ یَو±مَ ال±تَقَی ال±جَم±عٰنِ (الانفال۔41) ”اور اِس پر جو ہم نے اپنے (محبوب) بندے پر ”فیصلہ کے دن“ اُتارا جس دن دونوں فوجیں ملی تھیں۔“
یعنی مسلمان مجاہدین اور کافر دہشت گرد اِس دن جمع ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ذِلّت آمیز شکستِ فاش سے مشرکین مکہ کو ذلیل وخوار کیا تھا ۔
اِس غزوہ میں قتال‘ میدانِ بدر میں جمعة المبارک کو ہوا تھا۔ اِس غزوہ میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی جن میں ستتر (77) مہاجرین تھے اور دو سو چھتیس (236) انصار تھے۔ اِن تین سو تیرہ (313) میں سے آٹھ صحابہ کرامؓ وہ تھے جو کسی عذر کی بنا پر میدانِ بدر میں حاضر نہ تھے مگر اموالِ غنیمت میں اُن کو حصّہ عطا فرمایا گیا۔ اُن میں سے تین مہاجرین تھے‘ ایک امیر المومنین حضرت سیّدنا عثمان بن عفانؓ تھے جو حضور کے حکم سے اپنی زوجہ مطہرہ حضرت سیّدہ بی بی رقیہؓ کی علالت کی وجہ سے تیمار داری میں رُکے تھے۔ دوسرے حضرت سیّدنا طلحہؓ اور حضرت سیّدنا سعید بن زیدؓ تھے جو مشرکین مکہ کے قافلے کی جستجو میں گئے تھے ۔اِن کے علاوہ پانچ انصار تھے۔ اِس غزوہ میں مسلمانوں کے پاس صرف 2 گھوڑے ، 70 اُونٹ 6 زرہیں اور 8 شمشیریں تھیں ۔ایک ایک اُونٹ پر تین تین مسلمان سواری کرتے تھے۔ چنانچہ نبی کریم ‘ حضرت سیّدنا علیؓ اورحضرت مرثد غنویؓ ایک اُونٹ پر اور حضرت سیّدنا ابو بکرصدیقؓ‘ حضرت عمروؓ اور حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ دوسرے پر باری باری سوار ہوتے تھے۔
ابو الاثر حفیظ جالندھری مرحوم نے کیا خوب لکھا ہے:۔
تھے اُن کے پاس دو گھوڑے چھ زرہیں آٹھ شمشیریں
پلٹنے آئے تھے یہ لوگ دُنیا بھر کی تقدیریں
نہ تیغ و تیر پہ تکیہ نہ خنجر پر نہ بھالے پر
بھروسہ تھا تو اِک سادی سی کالی کملی والے پر
حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے جان نثارانہ تقریر فرمائی لیکن رسولِ کریم انصار کی طرف دیکھتے تھے کیونکہ بیعتِ عقبہ میں اُن کے ساتھ یہ عہد و پیمان ہوا تھا کہ وہ رسولِ کریم کی حفاظت اور دشمنانِ دین سے مدافعت اپنے گھروں میں کریں گے اور تلوار اُس وقت اُٹھائیں گے جب دشمن مدینہ منورہ پر چڑھ آئیں گے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ آخر حضرت سعد بن عبادہؓ (انصار کے رئیس ) اُٹھے اور اُنہوں نے عرض کی‘ یا رسول اللہ قسم ہے اُس ذاتِ (اَقدس) کی جس کے قبضہ¿ قدرت میں میری جان ہے اگر آپ حکم فرمائیں کہ ہم گھوڑوں کو سمندر میں ڈال دیں تو ہم ضرور سمندر میں کود پڑیں گے اور اگر آپ حکم فرمائیں کہ ہم گھوڑوں کو ”برک الغماد“ (حبشہ کے شہروں میں سے ایک شہر ہے) تک بھگا دیں تو ہم ہر طرح سے آپ کے حکم کے تابع ہیں۔ ہم میں سے کوئی ایک بھی حکم کی خلاف ورزی نہ کرے گا۔ اِس پر حضور نے اُن کے لئے دُعائے خیر فرمائی۔ ( مسلم جلد 1 ص 102)
حضرت مقداد بن اسودؓ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا‘ یا رسول اللہ ہم آپ کے حضور وہ بات نہیں کہیں گے ”جو حضرت موسیٰ ؑ کی قوم نے کہی تھی کہ ”آپ اور آپ کا پروردگار دونوں جائیں اور قوم جبارین سے لڑیں۔“ (المائدة: 124) بلکہ ہم آپ کے دائیں طرف‘ آپ کے بائیں جانب‘ آپ کے آگے اور پیچھے دشمن کے ساتھ لڑیں گے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جو اِس حدیثِ پاک کے راوی ہیں‘ فرماتے ہیں کہ نبی کریم کا چہرہ¿ انور خوشی سے چمکنے دمکنے لگا‘ آپ خوش ہوگئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں ”میں نے حضرت مقداد بن اسودؓ کی یہ ایسی نیکی دیکھی اگر وہ مجھے حاصل ہوتی تو اِس کے مقابل کسی نیکی کو نہ دیکھتا۔ سب سے زیادہ مجھ کو وہ پسند ہوتی۔“ (بخاری جلد 2 ص 564)
آپ 8 یا 12 رمضان المبارک 2ھ کو اپنے جانثاروں کے ساتھ شہر سے نکلے۔ چونکہ مدینہ سے روانگی اور ظاہری عدم موجودگی کی حالت میں منافقین اور یہود کی طرف سے اطمینان نہ تھا۔ اِس لئے حضرت ابو لبابہ بن عبدالمنذرؓکو مدینہ میں خلیفہ مقرر فرمایا اور حکم فرمایا کہ مدینہ کو واپس جائیں۔ مقامِ عالیہ (مدینہ طیبہ کی بالائی آبادی) پر حضرت عاصم بن عدیؓ کو مقرر فرمایا‘ اِن انتظامات کے بعد رسولِ کریمؓ بدر کی طرف بڑھے جدھر سے مشرکینِ مکہ مکرمہ کی آمدکی خبر تھی۔ روحا، منصرف، ذات، اجذال، معلاة ایثل سے 17 رمضان المبارک کو بدر کے قریب پہنچے۔
قریشِ مکہ مکرمہ چونکہ پہلے پہنچ گئے تھے اِس لئے اُنہوں نے مناسب مقامات پر قبضہ کر لیا۔ بخلاف اِس کے مسلمانوں کی طرف چشمہ یا کنواں تک نہ تھا۔ زمین ایسی ریتلی تھی کہ اُونٹوں کے پاو¿ں ریتلی زمین میں دھنس جاتے تھے۔ تائیدِ ایزدی اور رحمت ِالٰہی سے مینہ برس گیا جس سے گرد جم گئی اور جا بجا پانی کو روک کر چھوٹے چھوٹے حوض بنا لئے گئے۔ پوری وادی جَل تھل ہو گئی۔ سب پانی سے سیراب ہوئے‘ غسل کیا ‘ وضو کیا‘ اُونٹوں کو پانی پلایا اور مشکیز ے بھر کر رکھ لئے۔ ریگزار مضبوط اور سخت ہو گئی۔ کفار کی زمین میں کیچڑ ہو گیا۔ اِس قدرتی احسان کا رَبِّ کریم نے قرآنِ مجید میں اِس طرح ذکر فرمایا:”اور آسمان سے تم پر پانی اُتارا کہ تمہیں اِس سے ستھرا کرے اور شیطان کی ناپاکی تم سے دور فرمائے اور تمہارے دِلوں کی ڈھارس بندھائے اور اِس سے تمہارے قدم جمائے۔“ (الانفال : 11)
دونوں فوجیں آمنے سامنے مقابل ہیں۔ حق و باطل، کفر و اسلام، نور و ظلمت، نیکی و بدی اور خیر و شر۔ ”بے شک تمہارے لئے نشانی تھی دو گروہوں کی جو آپس میں لڑ پڑے‘ ایک جتھہ اللہ (تعالیٰ)کی راہ میں لڑتا اور دوسرا کفر کی، (مسلمانوں نے) جوآنکھوں دیکھا اپنے سے دوگنا سمجھیں۔“ ( آل عمران: 13)
نبی کریم پر سخت خضوع کی کیفیت طاری ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ کہ نبی کریم نے بدر کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اَقدس میں عرض کیا ”اے اللہ (تعالیٰ) میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا وعدہ اور اقرار پورا فرما‘ اے اللہ (تعالیٰ) اگر تیری مرضی یہی ہے تو پھر زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔“
یعنی وہ وعدہ یہ کہ پیغمبروں کو غلبہ ہوگا جیسے اِس آیت مبارکہ میں ہے : ”اور بے شک ہمارا کلام گزر چکا ہے‘ ہمارے بھیجے ہوئے بندوں (یعنی رسولوںؑ) کےلئے کہ بےشک اُن کی مدد ہوگی اور بےشک ہمارا ہی لشکر غالب آئے گا۔“ (الصّّٰٰفت: 171 تا 173)
ابنِ اسحاق کی روایت میں ہے کہ جب قریش مکہ مکرمہ کے کافر سامنے آئے تو آپ نے یوں دُعا فرمائی ”اے میرے اللہ (تعالیٰ) یہ قریش کے لوگ بڑے غرور اور فخر کے ساتھ پیغمبر سے لڑنے اور جھٹلانے کو آ رہے ہیں ‘ اپنی مدد بھیج جس کا تُو نے وعدہ فرمایا ہے۔“
اِس بے قراری پر بندگانِ خاص کو رِقت آ گئی۔ حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا‘ یا رسول اللہ اللہ (تعالیٰ) اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔
آخر روحانی تسکین کے لئے فرمایا: ”اَب بھگائی جاتی ہے یہ جماعت (فوجِ کفار ) اور پشتیں پھیر دیں گے۔“ (قمر : 45)
مسلمانوں کو اللہ کریم نے فتح عظیم سے نوازا۔ مسلمانوں میں صرف 14 جانثاروں نے جام شہادت نوش کیا جن میں 6 مہاجر اور باقی انصار تھے لیکن دوسری طرف قریش کی اصل طاقت ٹوٹ گئی اور روسائے قریش جو اپنی قوم میں بہادری میں مشہور اور قبائل کے سپہ سالار تھے‘ ایک ایک کر مارے گئے۔ اِن میں عتبہ، ابو جہل، ابوا لبختری‘ زمعہ بن الاسود ، عاص بن ہشام ، امیہ بن خلف ، عتبہ بن الحجاج قریش کے سردار تھے قریباً ستر واصل جہنم اور اِسی قدر گرفتار ہوئے ۔
مسلمان شہدا ءکے نام:
اِس غزوہ میں مسلمانوں کی طرف سے صرف چودہ مجاہد شہید ہوئے جن کے اَسمائے مبارک یہ ہیں۔ حضرت عبیدہ بن حارث بن مطلب بن عبد مناف، حضرت عمیر بن ابی وقاص ، حضرت ذوالثمالین عمیر بن عبد بن عمرو بن نضلہ‘ حضرت عاقل بن ابی بکیر، حضرت مہجع مولی عمر بن خطاب ‘حضرت صفوان بن بیضار (یہ چھ مہاجرین میں سے ہیں) ،حضرت سعد بن خیثمہ ، حضرت مبشر بن عبدالمنذر ،حضرت حارثہ بن سراقہ، حضرت عوف و معوذ پسران عفرائ، حضرت عمیر بن حمام، حضرت رافع بن معلیٰ اور حضرت یزید بن حارث بن فسحم (یہ آٹھ انصار میں سے ہیں) رضی اللہ عنہم ۔
قریش کے کفار کے لئے دُعا:
ایک مرتبہ حضور خانہ کعبہ شریف کے پاس نماز پڑھ رہے تھے تو ابو جہل کے کہنے پر عتبہ بن معیط نے سرکارِ کائنات کی پشتِ مبارک پر اُونٹ کی اَوجڑی رکھ دی جسے خاتونِ جنت حضرت سیّدہ بی بی فاطمہؓ نے ہٹایا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں ”وہاں سرکارِ کائنات نے بیت اللہ شریف کعبہ کی طرف رُخِ اَنور فرمایا اور قریش کے لوگوں مثلاً شیبہ بن ربیعہ‘ عتبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ اور ابو جہل بن ہشام کے خلاف دُعا فرمائی ‘فرماتے ہیں:خدا گواہ ہے میں نے اُن لوگوں کی لاشوں کو بدر کے میدان میں شدت کی گرمی میں سڑتے ہوئے بدبو دار دیکھا۔ اُس دن بڑی گرمی تھی۔“ (بخاری جلد 2 ص 565)
غزوہ بدر کی عظیم الشان فتح عطافرمانے کے بعد مسلمانوں کو اِس نعمت ِکبریٰ کی یاد دہانی بایں الفاظ فرمائی۔
”اور بے شک اللہ (تعالیٰ) نے بدر میں تمہاری مدد فرمائی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے۔“ (آل عمران: 123) (کنز الایمان) اللہ تعالیٰ نے اِس آیتِ کریمہ میں غزوہ بدر کے مجاہدین کی عظمت و شان بیان کی کہ خود خالقِ کائنات نے خصوصی طور پر اُن کی امداد فرمائی۔ یہ وہ نفوسِ قدسیہ ہیںکہ جن کے بارے حضور نے رَبِّ ذوالجلال کے حضور عرض کیا کہ مولائے کریم اگر آج یہ مسلمان مٹ جاتے ہیں تو قیامت تک کوئی تیری عبادت کرنے والا نہیں ہوگا۔ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے اِسلام کی عظیم الشان عمارت کی بنیادوں کو اپنے مقدس خون سے مضبوط کیا ‘ اللہ نے اِن کی امداد کے لئے تین ہزار اور پھر دو ہزار مزید یعنی کل پانچ ہزار فرشتوں سے مدد فرمائی۔
اِرشادِ خداوندی ہے: ”جب آپ مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار تین ہزار فرشتے اُتار کر تمہاری مدد فرمائے‘ ہاں! کیوں نہیں‘ اگر تم صبر و تقویٰ اختیار کرو اور کافر اِسی دم تم پر آ پڑیں تو تمہارا رَب تمہاری مدد کو پانچ ہزار فرشتے نشان والے بھیجے گا۔“ (آل عمران: 124۔ 125)
نیز حدیث پاک میں ہے‘ حضرت سیّدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ ”میں بدر کے کنویں سے چِلوُ بھر بھر کر پانی ڈول میں ڈال رہا تھا کہ ایسی تیز ہَوا آئی کہ میں نے کبھی ایسی تیز ہَوا نہ دیکھی تھی۔ ہَوا آئی اور گذر گئی۔ پھر ایک اور تیز ہَوا آئی کہ اتنی تیز ہَوا میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ بجز اُس ہَوا کے جو اِس سے پہلے آئی تھی۔ پہلی ہَوا حضرت جبرائیلؑ تھے جو ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ رسول اللہ کے ساتھ رہنے کے لئے نازل ہوئے تھے اور دوسری ہوا حضرت میکائیلؑ تھے جو ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ نازل ہوئے تھے۔ تیسری ہوا حضرت اسرافیلؑ تھے جو ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ نازل ہوئے تھے۔ دائیں جانب حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے اور اُن کے ساتھ حضرت میکائیلؑ تھے۔ بائیں جانب حضرت علیؓ تھے اور حضرت اسرافیلؑ اُن کے ہمراہ تھے۔ اِسے اِمام حاکم نے بیان کیا ہے۔ (ازالة الخفا¿ مترجم جلد 3 ص 45، 46)
اگرچہ سعید بن منصورؓ کی روایت میں ہے کہ حضرت جبرائیلؓ سرخ گھوڑے پر سوار تھے جس کی پیشانی کے بال گُندھے ہوئے تھے۔
اللہ (تعالیٰ) کا ایک فرشتہ ساری دُنیا کے کافروں کو مارنے کے لئے کافی تھا مگر پروردگار کو یہ منظور ہوا کہ فرشتوں کو بطور سپاہی بھیجے اور اُن سے عادت اور قوتِ بشری کے موافق کا م لے ۔
مذکورہ بالا عبارت کا مقصد و مدعا قارئین کرام کو یہ باور کروانا ہے کہ بدر کے میدان میں جن تین سو تیرہ (313) نفوس قدسیہ کا شیطانی قوتوں سے مقابلہ تھا‘ وہ کس قدر بزرگ اور عظیم شان والے تھے کہ جن کے حق میں امام الانبیائ نے دُعائیں فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نازل فرمایا‘ اُن مجاہدینِ اِسلام کے پاس ساز و سامان جنگ بھی مختصر تھا۔ آٹھ شمشیریں، چھ زر ہیں، دو گھوڑے اور ستر اُونٹ۔ عجیب قسم کی بے سر و سامانی تھی۔ بے سر و سامانی اورکم افرادی قوت کے مقابلے میں ایک ہزار فوج ہر قسم کے آلاتِ حرب سے آراستہ‘ پیادہ، سوار‘ زرہ پوش وغیرہ مگر فتح نے اہلِ ایمان کے قدم چومے اور خالق کائنات نے فرمایا : ”اور بے شک اللہ (تعالیٰ) نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے۔“
حضرت انسؓ فرماتے ہیں (کہ غزوہ¿ بدر کے شروع ہونے سے پیشتر حضور پُرنور نے شیطانی فوج کے مُردوں کے مرنے کے مقامات پر نشان لگائے) نبی کریم نے فرمایا: کہ یہ فلاں کافر کے مرنے کی جگہ ہے اور اپنا نورانی دستِ مبارک اُس جگہ زمین پر رکھا اوریہ فلاں مردُود کے گرنے اورمرنے کی جگہ ہے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں پھر جہاں آپؓ نے ہاتھ رکھا تھا اُس سے ذرا بھی فرق نہ ہوا اور ہر کافر اُسی جگہ مرا۔ (مسلم، ابوداو¿د، السنن الکبریٰ للبیہقی)
بدری مجاہدوں کی شان :
حضرت رفاعہ بن رافعؓ جو بدری صحابہ کرامؓ میں سے ہیں‘ اُنہوں نے فرمایا کہ حضرت جبرائیلؑ نبی کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے‘ عرض کرنے لگے‘ آپ بدر والوں کو کیسا شمار کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: سب مسلمانوں سے اَفضل ہیں یا اِس جیسا کلمہ اِرشاد فرمایا۔ حضرت جبرائیلؑ نے کہا‘ اِسی طرح جو فرشتے بدر کی جنگ میں شریک ہوئے تھے وہ بھی سب فرشتوں سے اَفضل ہیں۔“ ( بخاری جلد 2 ص 569)
اگرچہ فرشتے اور غزوات اور جنگوں میں بھی اُترتے تھے مگر بدر میں فرشتوں نے لڑائی بھی کی۔ حضرت اِمام بیہقیؒ نے روایت بیان کی کہ فرشتوں کی مار پہچانی جاتی تھی گردن پر چوٹ آگ کا سا داغ‘ حضرت جبیر بن مطعمؓ سے مروی ہے کہ بدر کے دن میں نے کافروں کی شکست سے پہلے آسمان سے کالی کالی چیونٹیاں اُترتی دیکھیں (یہ) فرشتے تھے‘ اُن کے اُترتے ہی فوراً کافروں کو شکست ہوئی۔ ایک روایت میں ہے کہ میں کافر مارنے کو جا رہا تھا اتنے میں آسمان سے ایک کوڑے کی آواز سُنی کوئی کہہ رہا ہے اے خیزدم آگے بڑھ پھر وہ کافر مر کر گر پڑا۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

ای پیپر دی نیشن