ویسے تو انسان ہر مہینے میں نیکیاں کماتا ہے لیکن رمضان المبارک کی فضیلت ایسی ہے کہ اس مہینے میں انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اچھے اچھے کام کرے، انسانیت کی خدمت کرے اور اللہ تعالی کو خوش کرنے کی کوشش کرے۔ یہی سبب ہے کہ لاہور میں غریب پروری اورعام انسانوں کیلئے افطاریوں کے وسیع دسترخوان بچھا دئیے جاتے ہیں۔ اس ماہ مقدس میں بے شمار پاکستانی دنیا بھرسے پاکستان صرف اس مقصد کیلئے آتے ہیں کہ غریب اور نادار پاکستانیوں کی ماہرمضان میں مدد کرسکیں۔ ایسے ہی پاکستانیوں میں ایک نمایاں نام طاہر جاوید کا ہے جو ہر سال غریبوں میں راشن تقسیم کرنے کیلئے امریکہ سے پاکستان آتے ہیں۔طاہر جاوید نے نوائے وقت کو بتایا ”میں ہوسٹن بزنس کرتا ہوں اور وہاں پر میرا شمار ان چند پاکستانیوں میں ہوتا ہے جسے امریکہ کی اہم شخصیات ذاتی طور پر جانتی ہیں۔ تمام پاکستانی اس لئے جانتے ہیں کہ ان کیلئے میں نے بہت سے رفاحی کام کئے ہیں اور ٹیکساس اور اسکے گرد و نواح کے رہنے والے پاکستانیوں کی بہت مدد کی ہے جس کی وجہ سے آج وہ باعزت بزنس کر رہے ہیں۔ خود میرے امریکہ میں درجن سے زیادہ برانڈ رجسٹرڈ ہیں اور اتنا کامیاب بزنسمین ہوں کہ ہوسٹن کاچیمبر آف کامرس مجھے بزنسمین آف دی ائر کا ایوارڈ بھی دے چکا ہے۔ اس کے علاوہ میں نے کمیونٹی سروس ایوارڈ اور لیڈرشپ ایوارڈ بھی حاصل کیا ہے۔اگرچہ میرے اچھے کاموں کی فہرست توطویل ہے لیکن ذاتی طور پر مجھے اسلامک سنٹر بومونٹ ٹیکساس بنوانے پر بہت خوشی ہے، میں نے اپنے دوستوں کی مدد سے ساڑھے تین ملین ڈالر میں اسے تعمیر کیا ہے اور اس سنٹر کے بن جانے کے بعد پاکستانی اور دوسرے ممالک کے باشندوں کو بہت سہولتیں میسر آ گئی ہیں، سب سے زیادہ خوشی کی بات ہے کہ اس سال میری ذاتی کوششوں سے ہوسٹن کے لارڈ میئر نے وہاں پر مقیم پاکستانیوں کے اعزاز میں ایک بہت بڑی افطار پارٹی دی جو کہ ایک یونیک واقعہ ہے۔ میری کوشش ہے کہ لارڈ میئر کی طرف سے افطاری کے سلسلہ کوجاری رکھا جائے کیونکہ اس سے پاکستانیوں اور مقامی انتظامیہ کے ساتھ بہت خوشگوار تعلقات قائم ہوتے ہیں اور پاکستانیوں کی عزت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔پاکستانیوں کے مالی جھگڑے ہماری ثقافت کا حصہ ہیں لیکن وہاں میں نے ایک حیرت انگیز تجربہ کیا جو بہت کامیاب رہا، تمام پاکستانی مجھ پر اعتبار کرتے ہیں اور عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں تو میں نے فیصلہ کیا کہ وہاں پاکستانیوں کے درمیان ہر قسم کے جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کیلئے ”پنچائیت“ قائم کی جائے۔ آپ شاید یہ جان کرحیران رہ جائیں کہ ہوسٹن میں قائم پنچائیت نے حیرت انگیز کارنامے انجام دئیے اور اب لین دین کے جھگڑے نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ ہماری پنچائیت کی کامیابی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم فیصلہ کرانیوالی دونوں پارٹیوں سے تحریری اقرار نامہ وصول کر لیتے ہیں جس میں وہ اقرار کرتے ہیں کہ انہیں پنچائیت کا فیصلہ قبول ہو گا۔ صرف ایک بار ایسا ہوا کہ ایک پارٹی نے فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کورٹ چلی گئی، جب جج نے بلایا تو میں نے وہاں جا کر دونوں پارٹیوں کا حلفیہ بیان پیش کردیا جس پر جج نے آگے کارروائی نہیں کی اور پنچائیت کے فیصلے کو بحال رکھا۔ اس واقعہ کے بعد ہر کوئی پنچائیت کا فیصلہ قبول کر رہا ہے۔وہاں بھی کرکٹ کے شوقین ہیں چنانچہ ان کے شوق کودیکھتے ہوئے وہاں کی مقامی حکومت سے بات کی اورکرکٹ کھیلنے کیلئے ایک مخصوص جگہ الاٹ کرا دی۔ اگرچہ یہ جگہ ملکیت تو ضلعی حکام کی ہے لیکن پاکستانیوں کو آزادی ہے کہ وہاں جا کر اپنے میچ کھیل سکتے ہیں اور اس موقع پر تمام فیملیز ان کی حوصلہ افزائی کے لئے جمع ہو جاتی ہیں اور میلہ کا سماں بن جاتا ہے۔ ویسے ان کی حوصلہ افزائی کے لئے پاکستانی کھلاڑیوں شاہد آفریدی، عمر اکمل اور سعید انور کو بھی وہاں بلا چکا ہوں جنہوں نے پاکستانی کھلاڑیوں کی بہت حوصلہ افزائی کی اور بیٹنگ اور بولنگ میں انہیں بہت کارآمد ٹپس دیں۔