وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں افغان مہاجرین کی واپسی کے مسئلے پر غور کرتے ہوئے ان کیلئے رجسٹریشن کارڈ کے ثبوت کو 2015ءتک توسیع دینے کا فیصلہ کیا گیا۔کابینہ نے افغان مہاجرین کی واپسی سرحدوں پر دراندازی روکنے اور سکیورٹی امور پر کمیٹی قائم کر دی ہے وفاقی وزراءچودھری نثار، پرویز رشید اور سیکرٹری دفاع کمیٹی کے ارکان جبکہ وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ سربراہ ہونگے۔دریں اثناءاقوام متحدہ نے کہا ہے کہ پاکستان نے ملک میں میں رہنے والے ملین سے زائد افغانیوں کیلئے پناہ گزین کی حیثیت میں توسیع کر دی ہے۔ یہ مدت 30 جولائی کو ختم ہو رہی تھی۔اقوام متحدہ کی ریفیوجی ایجنسی نے جمعہ کو بتایا کہ پاکستان نے مذکورہ افغان باشندوں کی پناہ گزین کی حیثیت کو اس حوالے سے نئی پالیسی آنے تک برقرار رکھنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
سوویت یونین کی افغانستان پر یلغار کے بعد افغان مہاجرین سیلاب کے ریلوں کی صورت میں پاکستان میں داخل ہوئے‘ پاکستان نے ان کو انسانی ہمدردی کی بناءپر پناہ دی۔ ایک موقع پر رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد تیس لاکھ سے تجاوز کر گئی تاہم سوویت یونین کی شکست اور اسکے انخلاءکے بعد مہاجرین کی واپسی شروع ہوئی لیکن یہ کام کبھی پائے تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو ایک بار پھر افغان قطار در قطار پاکستان میں چلے آئے۔ ان کو مختلف کیمپوں میں ٹھہرایا گیا‘ افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد ایک جمہوری حکومت وجود میں لائی گئی۔ گو کرزئی حکومت افغانستان میں مثالی امن تو ہرگزقائم نہ کر سکی لیکن نسبتاً حالات بہتر تھے۔ افغان مہاجرین پھر اپنے وطن لوٹنے لگے لیکن واپسی کی رفتار انتہائی سست رہی۔ آج بھی پاکستان میں رجسرڈ افغان پناہ گزنیوں کی تعداد 16 لاکھ ہے‘ غیرقانونی طور پر مقیم افغانوں کی تعداد اسکے علاوہ ہے‘ یہ بھی لاکھوں میں ہیں۔ رجسٹرڈ پناہ گزین کی حیثیت سے ان کو شناخت کیلئے خصوصی کارڈ جاری کئے گئے ہیں۔ لیکن پاکستان کے کرپٹ سسٹم سے فائدہ اٹھا کر قانونی اور غیرقانونی بہت سے مہاجرین نے قومی شناختی کارڈ بنوالئے۔ رجسٹرڈ پناہ گزین بھی کیمپوں تک محدود نہ رہے‘ غیرقانونی مہاجرین کی طرح انکی اکثریت بھی پورے ملک میں وبائی مرض کی طرح پھیل گئی۔ آج یہ پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں غیرقانونی اور جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ کروڑوں کی جائیدادوں کے بھی مالک ہیں۔ جائز یا ناجائز طریقے سے پاکستان میں افغان مہاجرین کے داخل ہونے کے بعد پاکستان میں کلاشنکوف کلچر اور منشیات کے دھندے کو عروج ملا۔ بعض مہاجرین قبضہ مافیا بن چکے ہیں‘ کئی گینگ بنا کر لوٹ مار کی وارداتیں کرتے ہیں۔ اکثر پاکستانی انکی غیرقانونی سرگرمیوں سے تنگ آچکے ہیں۔ افغانوں کو انسانی ہمدردی کی بناءپر پناہ دی گئی اور پورے ملک میں انکی آمد و رفت پر شروع میں ناگواریت کا اظہار نہیں کیا گیا لیکن اب یہ انسانی ہمدردی پاکستانیوں کے گلے پڑ رہی ہے تو پاکستانی برملا ان سے نجات کا بجا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔
وفاقی کابینہ نے رجسٹرڈ مہاجرین کو 2015ءتک پاکستان میں رہنے کی اجازت دی ہے۔ امریکہ نے اپنے اعلان کے مطابق افغانستان سے فوجیوں کی واپسی کا عمل شروع کر دیا ہے۔ 2014ءمیں وہ اپنے وعدے کے مطابق انخلاءمکمل کر چکا ہو گا۔ امن و امان کے حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے حالات میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ لہٰذا افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل آج ہی سے شروع کرایا جائے۔ متعلقہ ادارے لسٹوں کی تیاری کریں اور حکومت مہاجرین کو باور کرا دے کہ ان کو مزید مہلت نہیں دی جائیگی۔ اسکے ساتھ ہی غیرقانونی طور پر موجود مہاجرین کو رجسٹریشن کرانے کی مختصر سی مہلت دی جائے‘ اسکے بعد غیررجسٹرڈ افراد کو ملک بدر کرنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ کی جائے۔ پہلے اقدام کے طور پر مہاجرین کو کیمپوں تک محدود کرتے ہوئے انکی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔
ایک طرف ہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پڑوسی ملک کے ستم رسیدہ افراد کو پناہ دیتے ہیں‘ جن میں اکثر یہاں رہ کر ستم گر بن گئے۔دوسری طرف اپنے ہی ہم وطنوں کو بری طرح نظرانداز کئے ہوئے ہیں‘ بنگلہ دیش میں موجود محصورین پاکستان نے پہلے ملک بنانے اور پھر ملک بچانے کیلئے قربانیاں دیں اور آج بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کی سزا بھگت رہے ہیں۔ نواز شریف کے گزشتہ دور میں محصورین پاکستان کی واپسی کا عمل شروع ہوا اسکے تحت تقریباً 325 خاندانوں کی واپسی ہوئی، میاں چنوں، اوکاڑہ، لاہور میں بالخصوص انکے قیام کا بندوبست ہوا۔اسکے بعد پاکستانی حکمرانوں نے مکمل سکوت اختیار کرلیا۔ محصورین کو پاکستان میں لا کر آباد کرنے کا زیادہ تر کریڈٹ وزیراعلیٰ پنجاب مرحوم غلام حیدروائیں کو جاتا ہے۔ نوازشریف حکومت کو 90ءکے انتخابات کے بعد آئینی مدت مکمل کرنے دی جاتی تو یقیناً کٹر مسلم لیگی اور اقبال و قائد کے پیروکار غلام حیدروائیں تمام محصورین کو پاکستان لا کر بسا دیتے۔ بنگلہ دیش میں تقریباً 3 لاکھ کے قریب محصورین 13 اضلاع میں 70 کیمپوں میں رہ رہے ہیں جن کو بنیادی انسانی حقوق تک میسر نہیں ۔وہ اپنے دل اپنے وطن آمد کی تڑپ رکھتے ہیں۔
اتفاق سے آج پاکستان میں ایک بار پھر میاں نواز شریف وزیراعظم ہیں‘ وہ تین لاکھ محصورین کو آسانی سے پاکستان لا کر بسا سکتے ہیں۔ حکومت کو زیادہ تردد نہیں کرنا پڑیگا۔ شروع میں ان کو افغان مہاجرین کے خالی کردہ کیمپوں میں رکھا جا سکتا ہے جو 2015ءتک خالی ہو چکے ہونگے۔ رفتہ رفتہ وہ اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو کر خود اپنی بستیاں آباد کرلیں گے۔ مہاجرین کے پاکستان سے انخلاءکے بعد نہ صرف پاکستانی کمزور معیشت پر بوجھ کم ہو گا‘ امن و امان کی صورتحال میں بھی خاطرخواہ بہتری آئیگی اور حب الوطنی کے جذبے سے معمور محصورین کو بھی اپنے وطن میں سر چھپانے کا ٹھکانہ مل جائیگا۔