لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل سانحہ ماڈل ٹائون کے انکوائری ٹربیونل نے اپنی کارروائی مکمل کر لی۔ پوری کارروائی کے دوران ادارہ منہاج القرآن نے ٹربیونل کا بائیکاٹ جاری رکھا اور ان کا کوئی بھی نمائندہ ٹربیونل کے بار بار نوٹس بھیجنے کے باوجود پیش نہیں ہوا۔ ٹریبونل نے حتمی نوٹس بھجوایا تو ادارہ منہاج القران کی طرف سے ٹربیونل کو آگاہ کیا گیا کہ ادارہ کی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی اس لئے وہ ٹربیونل کو نہیں مانتے لہٰذا وہ ٹربیونل کی کارروائی میں شامل نہیں ہوں گے۔ ٹربیونل کے حکم پر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے گزشتہ روز اپنے نامزد کردہ سپیشل سیکرٹری کے ذریعے بیان حلفی ٹربیونل کے روبرو جمع کرا دیا۔ شہباز شریف نے اپنے بیان حلفی میں کہا کہ 17جون کو جب میں اپنی سرکاری مصروفیات کے لئے تیار ہو رہا تھا تو ٹی وی کی خبر سے معلوم ہوا کہ ادارہ منہاج القران کے قریب اس کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے میں نے فوری طور پر اپنے سیکرٹری ڈاکٹر سید توقیر شاہ کو فون کر کے واقعہ کی بابت دریافت کیا انھوں نے بتایا کہ 16جون کو صوبائی وزیر قانون و لوکل گورنمنٹ رانا ثناء اللہ نے ادارہ منہاج القران کے گرد تجاوزات کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا میں نے کہا کہ مجھے اس فیصلہ سے مطلع کیوں نہیں کیا گیا۔ اس صورتحال کے پیش نظر میں نے ڈاکٹر توقیر شاہ کو حکم دیا کہ فوری طور پر پولیس کو وہاں سے ہٹا دیا جائے، اس کے بعد میں شیڈول کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے گورنر ہائوس روانہ ہو گیا۔ بعدازاں پہلے سے طے شدہ سرکاری مصروفیات کو نمٹانے کے لئے واپس ماڈل ٹائون چلا گیا۔ اس دوران مجھے اطلاع دی گئی کہ ادارہ منہاج القران کے باہر امن وامان کی صورتحال سنگین ہو گئی ہے جس کے نتیجہ میں متعدد شہری اور پولیس اہلکار ہلاک اور زحمی ہوئے۔ یہ خبر سن کر مجھے بہت دکھ اور تکلیف ہوئی جس پر میں نے فوری طور پر متعلقہ وزرا اور سینئر سرکاری افسروں کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ واقعہ میں جاں بحق ہونے والوں کے پسماندگان کو امداد دی جائے زخمیوں کو علاج معالجہ کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ واقعہ کی تحقیقات کے لئے لاہور ہائیکورٹ کے جج کی سربراہی میں انکوائری ٹربیونل قائم کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سے واقعہ کے بارے شفاف اور آزادانہ تحقیقات بھی کرائی جائیں۔ میں نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے اور شفاف تحقیقات کے لئے فوری طور پر سی سی پی او، ڈی آئی جی آپریشن اور ایس پی ماڈل ٹائون کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا۔ وزیراعلیٰ کا سربمہر بیان ٹربیونل میں پیش کیا گیا تو ٹربیونل کے سربراہ نے ایڈووکیٹ جنرل کو حکم دیا کہ وہ اسے کھولیں اور اوپن کورٹ میں پڑھیں جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بیان پڑھ کر سنایا۔ دوران کارروائی آئی جی پولیس پنجاب مشتاق سکھیرا اور دیگر پولیس حکام بھی ٹربیونل کے روبرو پیش ہوئے۔