بالآخر جوڈیشل کمشن نے عیدالفطر کے بعد دھماکہ کر ہی دیا پوری قوم کی نظریں جوڈیشل کمشن پر لگی ہوئی تھیں سیاسی حلقوں میں جوڈیشل کمشن کے بارے مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں ہر کوئی اپنی مرضی کے ’’نتائج‘‘ اخذ کر رہا تھا 7 اپریل 2015ئ کو قائم ہونے والے جوڈیشل کمشن کے ارکان 2013ئ کے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کی سماعت مکمل کرنے کے بعد بڑی خاموشی سے237صفحات پر مبنی رپورٹ تیار کی حتیٰ کہ عیدالفطر کی چھٹیاں بھی نہیں کیں اور عیدالفطر کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی اپنی رپورٹ حکومت کو بھجوا دی حکومت نے بھی اسے ویب سائٹ پر لانے میں دیر نہیں لگائی اسی شب مسلم لیگ(ن) کے وکیل شاہد حامد نے حکومت کو موصول ہونے والی جوڈیشل کمشن کی رپورٹ افشا کر دی جوڈیشل کمشن 3 ٹرمز آف ریفرنس پر قائم کیا گیا تھا جو عام انتخابات کی شفافیت ،منظم دھاندلی اور مینڈیٹ چوری سے متعلق تھے جوڈیشل کمشن نے عمران خان کے تینوں الزامات کو مسترد کر دیا ہے اور عام انتخابات کو شفاف قرار دے دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ منظم دھاندلی ہوئی ہے اور نہ ہی مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے جوڈیشل کمشن نے87 روز تک سماعت کی جب کہ69 گواہوں نے اپنے بیانات ریکارڈ کرائے شروع دن سے یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کا کیس کمزور بنیادوں پر قائم ہے اور اس کے پاس عام انتخابات میں دھاندلی ثابت کرنے کے لئے ’’ناکافی‘‘ ہیں وہ ناکافی شہادتوں کی وجہ سے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخارمحمدچودھری، جسٹس خلیل الرحمنٰ رمدے اور نجم سیٹھی کے خلاف الزامات سے ہی دستبردار ہو گئے اور ان الزامات کو محض ’’سیاسی گپ شپ‘‘ قرار دے کر راہ فرار اختیار کر لی یہی وجہ ہے’’سیاسی پنڈتوں‘‘ نے بہت پہلے ہی یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کے ٹرمز آف ریفرنس پر جوڈیشل کمشن بنوا کر اپنی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہے اس کو ’’سیاسی خودکشی‘‘ قرا دیا تھا کیونکہ وہ یہ الزامات ’’دھرنے اور جلسوں‘‘ میں تو لگائے جا سکتے تھے لیکن انہیں عدالت میں ثابت کرنا بہت مشکل تھا اگر عمران خان سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے تو اس وقت ہی معاہدہ کر لیتے جب میاں نواز شریف دھرنے کے دبا? میں آکر 5/1/2مطالبات تسلیم کرنے کے لئے تیار تھے لیکن وہ مسلم لیگ(ن) کی مذاکراتی ٹیم کے سامنے ڈھیر ہو گئے اور حکومتی وکلائ کے تیار کردہ ٹرمز آف ریفرنس کو قبول کر کے اپنی کامیابی کے شادیانے بجانے لگے پچھلے تین ماہ سے ’’بند تھیلوں ‘‘میں ثبوتوں کا واویلا تو کرتے رہے لیکن کچھ بھی ہاتھ نہ آیا جوڈیشل کمشن کی رپورٹ نے 2013ئ کے عام انتخابات کو آئین وقانون کے مطابق شفاف قرار دے کر عمران خان کا ’’دھاندلی‘‘ کے مفروضے پر قائم ’’عالیشان سیاسی محل‘‘ زمین بوس کر دیا ہے عمران خان کے الزامات کو مسترد ہونے سے پاکستان مسلم لیگ(ن) کو سیاسی اور اخلاقی برتری حاصل ہو گئی ہے جوڈیشل کمشن کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد مسلم لیگی حلقوں میں جشن کا سماں پایا جاتا ہے اس رپورٹ سے عمران خان کی سیاست کو شدید دھچکا لگا ہے عمران خان جو جارحانہ انداز میں ’’سیاسی کھیل‘‘ کھیلنے کی شہرت رکھتے ہیں اب انہیں دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑ جائے گی سردست عمران خان نے جو ڈیشل کمشن کے فیصلے کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے تاہم ان کے بارے میں کوئی بات حتمی طور نہیں کہی جا سکتی کہ وہ کسی وقت بھی’’یوٹرن‘‘ لے سکتے ہیں جوڈیشل کمشن کی رپورٹ نے تحریک انصاف کی سیاست اور سیاسی مستقبل کے لئے جہاں سوال کھڑے کر دئیے ہیں وہاں کمشن کی رپورٹ نے نواز حکومت کے سر پر لٹکتی تلوار ہٹا دی ہے عمران خان کی’’گو نواز گو‘‘ تحریک کے غبارے سے بھی ہوا نکال دی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروںکی رائے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف جس نے 14 اگست2014ئ نے ’’انتخابی دھاندلیوں‘‘ کو جواز بنا کر اسلام آباد پر جو یلغار کی او 126 روز تک اسلام آباد کو یرغمال بنائے رکھا کو کمشن کی رپورٹ نے ’’سیاست کے گہرے غار‘‘ میں دھکیل دیا ہے ہر آنے والا دن عمران خان کی سیاست میں زوال کا باعث بن رہا ہے جوڈیشل کمشن کے چیئرمین چیف جسٹس ناصر الملک ارکان جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل خان نے متفقہ طور پر رپورٹ لکھی ہے رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 2013ئ کے انتخابات شفاف اور قانون کے مطابق تھے ، انتخابات میں الیکشن کمشن کی جانب سے کچھ بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں لیکن ان بے قاعدگیوں سے عام انتخابات کی شفافیت متاثر نہیں ہوتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دھاندلی سے متعلق تحقیقات کے مطالبات جائز تھے، تاہم کمشن نے یہ بھی کہا ہے کہ کسی پارٹی کی طرف سے منصوبہ بندی جوڑ توڑ یا انتخابات پراثرانداز ہونا ثابت نہیں ہو سکا، اسی طرح فارم 15کی گمشدگی کوئی بڑا مسئلہ تھا اور نہ ہی اس سے کوئی فرق پڑتا ہے، سازش یا منظم دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا جوڈیشل کمشن کی رپورٹ آنے کے بعد اگلے روز وزیراعظم نواز شریف نے پارٹی کے سینئر رہنما?ں کا اجلاس طلب کر لیا جس میں رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد اسے فوری طور جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا اجلاس میں طے کیا گیا کہ حکومت جوڈیشل کمشن کی رپورٹ کے تناظر میں تحریک انصاف کو ٹارگٹ بنانے کی بجائے اسے مثبت انداز میں اپنے حق میں استعمال کیا جائے وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی امور عرفان صدیقی نے وزیراعظم نواز شریف کی ’’یادگار تقریر‘‘ لکھی جس میں آخر وقت تک ترامیم کی جاتی رہیں وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں جہاں یہ بات کہی ہے کہ ’’اللہ نے ہمیں سرخرو کیاہے تقریباً تین ماہ کی کارروائی کے بعد انکوائری کمشن کی جامع رپورٹ ہمارے موقف ہی کی نہیں، پاکستانی عوام کے مینڈیٹ کی توثیق بھی ہے۔یہ جمہوریت، آئینی نظام اور اداروں کی بلوغت کی علامت ہے۔یہ اس نظریے کی توثیق ہے کہ مسائل سڑکوں پر نہیں، دھرنوں میں نہیں، دستوری ایوانوں میں حل ہو ں گے۔ قوموں کی زندگی میں بے یقینی کے موسم، بے ثمر ہی نہیں تباہ کن بھی ہوتے ہیں۔ بے یقینی سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے اور سیاسی عدمِ استحکام تعمیروترقی کی راہوںپر آگے بڑھتے ہوئے قدم روک دیتا ہے‘‘۔ انہوں نے اپنی پوری تقریر میں کسی جگہ بھی دانستہ عمران خان کا نام نہ لے کر ان کو نظرانداز کیا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اب ان کے لئے عمران خان کوئی مسئلہ نہیں رہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جوڈیشل کمشن نے عمران خان کی’’جارحانہ سیاست‘‘ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اس لئے انہوں نے ان کو مزید ’’لتاڑنے‘‘ کی بجائے مستقبل پر نظر رکھی ہے اور اس توقع کا اظہار کیاہے کہ تمام جماعتیں انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی میں بیٹھ کر اپنا بھرپور کردار ادا کریں گی اور یہ کام جلد مکمل کر لیا جائے گا‘‘۔ انہوں نے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ انہوں نے انتخابات کے بعد سے باہمی مشاورت، مفاہمت اور اتفاق رائے کی تعمیری روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ عوامی مینڈیٹ کے مطابق حکومتوں کے قیام سے لے کر نیشنل ایکشن پلان، آئینی ترمیم اور چین پاکستان اقتصادی راہداری تک تمام بڑے فیصلے قومی اتفاق رائے کے ساتھ کئے ہیں پاکستان کی سیاسی تایخ میں پہلی مرتبہ جوڈیشل کمشن نے 2013 ئ کے انتخابات کی شفافیت کی توثیق کی ہے اس سے جہاں وزیراعظم نواز شریف سیاسی لحاظ سے مضبوط ہوئے ہیں وہاں ان کے سب سے بڑے مخالف عمران خان کے سیاسی طور انتہائی کمزور ہونے کا امکان ہے سیاسی حلقوں میں یہ بات برملا کہی جا رہی ہے کمزور اپوزیشن حکومت میں ’’ فرعونیت‘‘ پیدا کر سکتی ہے جس طرح وزیراعظم نے عمران خان کا نام لئے بغیر انہیں سبق سیکھنے کی تلقین کی ہے ہم بھی ان کو ایک ’’بلامعاوضہ‘‘ مشورہ دینا چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر جو خصوصی کرم کیا ہے وہ نہ صرف اللہ تعالی کے حضور سرسجود ہو جائیں بلکہ اپنے مخالفین کو رگیدنے کی بجائے ان کی طرف جھک جائیں انکوائری کمشن کے فیصلے کے بعد پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ اب ملک کے سب سے بڑے اور بے حد معتبر انکوائری کمشن نے 2013ئ کے انتخابات کے شفاف اور دھاندلی سے پاک ہونے کی حتمی طور پر توثیق کر دی ہے لہذا الزامات اور بہتان تراشی کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہو جانا چاہیے وزیر اعظم بھی منصفانہ اور بے داغ انتخابات کو متنازعہ بنا نے کے باب کو بھلانے کی کوشش کریں۔ عمران خان اپنے کئے پر نہ صرف وزیراعظم نواز شریف بلکہ پارلیمنٹ اور قوم سے معافی مانگ کر اپنے بڑے ہونے کا ثبوت فراہم کریں ممکن ہے وہ اپنے طرز عمل میں تبدیلی سے اپنی سیاست کو پہنچنے والے نقصان کا کچھ ازالہ کر سکیں۔