پاکستان کی بنیادی اساس اور مجید نظامی

خائق کائنات کے وضع کردہ قوانین و ضوابط کے مطابق ہر انسان دنیا میں جیسے کام کرتا ہوا رخصت ہوتا ہے۔ تاریخ میں اسے اس کے اعمال اچھے ہوں یا بُرے اس کے مطابق یاد رکھا جاتا ہے۔
یہ اعمال پر منحصر ہوتا ہے، کہ ان کی نوعیت کس حد تک مقدار میں کم یا زیاددہ ہے جسے نیک اعمال جتنے زیادہ ہوں گے۔ اسی حساب سے اس کا مقام بھی اُتنا ہی بلند لکھا جائے گا۔ جبکہ برے اعمال والے کو اس کے اعمال کی نسبت سے اسی مناسبت سے آنے والے وقت میں برے الفاظ میں زیادہ رکھا جائے گا اور جب جب اسے یاد کیا جائے گا۔
اس کی برائی کا تذکرہ رہے گا جبکہ اکثر اوقات خالق و مالک اپنے احکامات کی پاسداری کرنے والوں کو اہل دنیا کے سامنے ان کی زندگی میں بھی بلند مقام سے اور مرتبہ متعین کر دیتا ہے۔ کچھ ایسا ہی پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ محترم مجید نظامی صاحب کے ساتھ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے کہا کہ ! آپ کی زندگی میں بھی آپ کی اسلام کے لئے، مسلمانوں کے لئے کی گئی کوششوں کے ہمیشہ کے طور پر آپ کو بلند مقام عطا کیا۔ جبکہ اپنے پاس بلانے کے وقت کو بھی اہل عالم کے سامنے منفرد مقام سے نواز کر بتا دیا کہ! اللہ کے دین کے لئے کی گئی کوششوں اور قربانیوں کا صلی اللہ تبارک و تعالیٰ بہترین صورت میں دیتا ہے۔
محترم نظامی صاحب نے زندگی بھر جس جس طرح اپنے قلم کو جہاد کے طور پر استعمال کیا اور روزنامہ نوائے وقت کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ بخوبی انجام دیا۔ آپ کی زندگی کا نصب العین تھا۔
دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پہ کڑا وقت ہو آپ ان کی مشکلات کے حل کے لئے تمام تر کوششوں کو برئے کار لا کر بھرپور کردار ادا کرتے۔ بحیثیت نظریہ پاکستان فائونڈیشن کے چیئرمین آپ نے جس طرح پاکستان کی بنیادی اساس کو زندہ رکھا اور پھر نوجوان نسل میں نظریہ پاکستان کو زندہ رکھنے کے لئے جوکردار ادا کیا۔ وہ تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔
آپ نے ہمیشہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے فرمودات کو بھی عملی صورت میں رائج کرنے کیلئے تگ و دو کی اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ! آپ میں اقبال کے ’’مرد مومن‘‘ اور ’’شاہین‘‘ کی تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود تھیں قلم کے تقدس کی پاسداری کوئی آپ سے سیکھے نظریاتی صحافت اور صحافت میں جرات و بے باکی آپ کا طرہ امتیاز تھا اور اسلام پاکستان کی سربلندی کے لئے جدوجہد آپ کی زندگی کا مقصد حیات اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ! اب وہ آپ کی صاحبزادی محترمہ رمیزہ نظامی صاحبہ کو ہمت عطا کرے تاکہ! وہ آپ کے مشن کو آگے لے کر چلیں (آمین ثم آمین) اپنی بات ان الفاظ میں ختم کرونگی
یوں تو دنیا میں سبھی آئیں ہیں مرنے کے لئے
نقش پہ نقش بگڑتے ہیں سنورنے کے لئے
مرنے والے مگر اس شان سے کم ہوتے ہیں
دوست تو دوست ہیں کیا؟ دشمن بھی جنہیں روتے ہیں
…٭…٭…٭…

ای پیپر دی نیشن