میری سماجی زندگی میں کئی ادباروانحطاط آئے اور میں نے بڑے جگرے سے مسلسل اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی بالآخر مجھے کامیابیاں اور کامرانیاں نصیب ہوئیں۔ اس کی وجہ میرے راہبر مجید نظامی کی جرات رندانہ کا اعجاز تھا۔ آج میں جب ماضی کے دریچوں میں جھانکتی ہوں تو مجھے اپنا سماجی سفر جہاں سے میں نے ایک مقام حاصل کیا تھا وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیراہتمام قائداعظم خواتین کانفرنس کا انعقاد تھا۔ مجیدنظامی مرحوم کی ہدایات اور حکم پر میں نے اس کانفرنس کی کامیابی میں دن رات ایک کر دیا تھا۔ میرے قرطاس اعزاز پر لاتعداد کامرانیوں کے نشانات ثبت ہیں مگر میرا سب سے بڑا اعزاز صرف اور صرف ایک ہی ہے جس پر میں نازاں ہوں، فرحاں ہوں، شاداں ہوں وہ یہ کہ مجید نظامی میرے رہنما تھے اور آج بھی ان کی یادیں میری متاع عزیز ہیں۔ 19ویں صدی نے بڑے بڑے جلیل القدر لوگ پیدا کئے۔ 20ویں صدی انہیں کھا گئی اور آج ہم اکیسویں صدی کے قحط الرجالی کے تپتے ہوئے صحرا میں جھلس رہے ہیں تو مجید نظامی جیسا قدآور عظیم انسان ہمارے اوپر سایہ فگن تھا اور اس شجر سایہ دار کی گھنی چھائوں ہمارے لئے بادصبح گاہی کے خوشگوار جھونکوں سے کم نہ تھی یہ سایہ دار درخت بھی اب ہم پر نہیں رہا ہے۔
آج ایک سال کا عرصہ مفارقت صدیوں پر محیط ہے حکمرانوں کو راہ راست پر لانے والا، اپنوں کو اپنائیت کے رشتوں میں مضبوط کرنے والا، دشمنوں کے لئے شمشیر بے نیام اور دوستوں کے لئے انتہائی مہربان مجید نظامی کو ڈھونڈتی ہوں تو دور دور تک ایک صحرا ہی صحرا دکھائی دیتا ہے۔
ہاں! مجید نظامی کی ایک نشانی رمیزہ نظامی کی صورت میں ہمارے درمیان موجود ہے۔ پھر حوصلہ ملتا ہے۔ گزشتہ روز جب رمیزہ نظامی سے میری ملاقات ہوئی اور میں نے انہیں کہا کہ میں مجید نظامی صاحب کی برسی پر ان کے مزار پر جائوں گی تو رمیزہ نظامی نے میری رہنما کی کہ مزار نہیں کہنا مجید نظامی مرحوم کی آخری آرام گاہ پر آپ نے جانا ہے۔ مجھے بڑی خہشی ہوئی کہ رمیزہ نظامی کا قبلہ درست ہے اور وہ اپنے والد گرامی کی حقیقی وارث صرف اداروں کی ہی نہیں بلکہ وہ نظریات کی بھی ہے۔ رمیزہ نظامی نے میری درست سمت رہنمائی کی اور میری حوصلہ افزائی کی۔ آج ہارے ملک میں کتنے اخبار ہیں، کتنے جرائدورسائل ہیں اور لاتعداد صحافی ہیں مگر ان میں ایک بھی مجید نظامی کے قد کاٹن کا نہیں ہے۔ وہ خاموش رہتے تھے اور جب بولتے تو بھارت سرکار کے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہو جاتا تھا۔ وہ ہندو بنیئے کی پوری نفسیات سے آگاہ تھے اگر یہ کہا جائے کہ مجید نظامی سیاست کے ماہر نفسیات تھے تو بے جا نہ ہو گا۔ جدہ، مکہ اور مدینہ میں بھی ان کے ساتھ یادوں کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے۔ رمیزہ نظامی بھی ان کے ہمراہ تھی جب وہ سعودی عرب تشریف لائے تھے۔ میرے میاں ڈاکٹر اسحاق کا وہ بے پناہ احترام کرتے تھے۔
مجھے جدہ میں میزبانی کا شرف حاصل رہا ہے۔ آپ نے فانی زندگی کو جاودانی بنا دیا اور آج مجید نظامی مر کر بھی زندہ ہیں۔ نوائے وقت کی صورت میں، نظریہ پاکستان کی شکل میں، فیملی میگزین اور وقت ٹی وی کی آواز میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ محسن نقوی کا یہ شعر آپ کی ذات گرامی پر کتنا صادق آتا ہے۔ … ؎
عمر اتنی تو عطا ہو میرے فن کو خالق
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے
مجید نظامی ایک عہد کا نام تھا۔ صحافت کا ایک روشن عہد مجید نظامی کے ساتھ ہی ختم نہیں ہوا شروع ہو گیا ہے۔ وہ روایتی خبریں توڑ گئی ہیں کہ صحافت کا آفتاب غروب ہو گیا ایسا ہرگز نہیں ہے۔ صحافت کا مہتاب طلوع ہو رہا ہے۔ رمیزہ نظامی کو مولائے کریم نے انتظامی امور کی انجام دہی کا ملکہ عطا ہے۔ وہ مجید نظامی کی سوچ اور فکر کی قندیلیں ہمیشہ روشن رکھے گی اور مجید نظامی کی غیرت ملی پر کوئی سمجھوتہ کرنے کا ارادہ بھی نہیں کرے گی۔ اسے معلوم ہے کہ اس کا باپ اقبال کا شیدائی اور قائد کا فدائی تھا۔ وہ قائدواقبال کے نظریات کا عمر بھر پرچارک کرتے رہے۔ دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنے مقصد اعلی کے حصول کے لئے نہ روک سکی اور نہ ٹوک سکی وہ سچے اور سچے پاکستانی تھے اور اقبال کے اس شعر کے مصداق… ؎
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
مجید نظامی مرحوم اپنے پیچھے جہاں اپنے ذاتی ادارے وارثت میں چھوڑے ہیں وہاں انہوں نے قومی سطح پر گراں بہا اور سدا بہار ادارے نظریہ پاکستان ٹرسٹ، مادر ملت فائونڈیشن، ایوان قائداعظم بھی چھوڑے ہیں جو انہیں ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔
مولائے کریم ہم سب کو ڈاکٹر مجیدنظامی کے افکارونظریات پر عمل کرنے کی توفیق دے اور مرحوم کو اللہ تعالی اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔ … ؎
آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
مجید نظامی اول وآخر بے باک صحافی
Jul 27, 2015