کیا صدارتی نظام جمہوریت کی ضد ہے؟

Jul 27, 2016

ایم۔ اے سلہری

عام شہری ہی نہیں، اہل فکر و دانش میں بھی جب کبھی بات ملکی نظام کی چلے تو عام ذہنوں میں پایا جانے والا یہ تاثر بھی بطور دلیل زیر بحث آتاہے کہ نظام بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوتا بلکہ یہ تو ان لوگوں کے اپنے کر دار پر منحصر ہے جن پر کسی نظام کو چلانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ اختیار اگر صاحب کردار لوگوں کو سونپا جائے گا تو کام اچھا ہوگا اور برے لوگوں کو قومی امانتیں سونپنے کا نتیجہ بھی برا ہی ہوگا۔ یہ بھی اکثر شد و مد سے کہا جاتا ہے کہ اگر ہم سب اپنے آپ کو درست کر لیں تو سارا نظام خود بخود ٹھیک ہو سکتا ہے۔یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ صدارتی نظام جمہوریت کی ضد ہے اورعوامی مشکلات سے نجات کاواحد راستہ پارلیمانی نظام ہی ہے۔اس بات سے انکار نہیں کہ امانتیں اگر صادق اور امین لوگوں کو سونپی جائیں تو یہ صاحب کردار لوگ امانتیں حقداروں کو ہی لوٹائیں گے کیونکہ صادق اور امین شخص امانت میں معمولی خیانت کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔اس بات سے بھی انحراف ممکن نہیں کہ فسق و فجور میں مبتلاء شخص سے خیر کی امید بے سود ہے۔یہ بھی تسلیم کہ ہم سب خود اپنا قبلہ درست کر لیں تو نظام میں خود بخود انقلاب برپا ہو سکتا ہے مگر یہ ممکن نہیں ہوتا ،آخرت میں جزاء و سزاء کا تصور تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے ہی ، معاشرے کو توازن میں رکھنے کیلئے دنیا میں بھی ظالم ،قانون شکن ،کرپٹ اور دہشت گرد عناصر کی حوصلہ شکنی ضروری ہے جو کسی نظام کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ کہنا کہ کوئی نظام بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوتا نہ صرف ایک خام خیالی ہے بلکہ تدبر سے انحراف اور شخصیت پرستی کے مترادف ہے۔اگر نظام میں چیک اینڈ بیلنس مفقود ہو اور حکومتی معاملات کو تقسیم اختیارات کی بجائے شخصی من مرضی اور رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے تو نہ صرف شخصی آمریت پروان چڑھ سکتی ہے بلکہ اشرافیہ احتساب سے مستثنیٰ رہے گی ۔ احتساب خواص کی بجائے عوام کا ہی ہو گاجس سے درمیانہ طبقہ مصائب و مشکلات کی تاب نہ لاتے ہوئے تحلیل ہوتا جائیگا۔ اسلئے اگر ہم عام آدمی کو مشکلات سے نکالنے کے دعووں میں مخلص ہیں تو ہمیں شخصیت پرستی کے طلسم کو توڑ کر احتساب سب کیلئے جیسی روائت پر عمل کرنا ہوگا اور اگر ہم ایسا کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو چیک اینڈ بیلنس کا نظام وضع کرکے اشرافیہ کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔ جب تک یہ طبقہ احتساب سے بالا رہے گا پائیدار امن و انصاف کا خواب شرمندہء تعبیر نہیں ہو سکتا۔جہاں تک اس مفروضے کا تعلق ہے کہ صدارتی نظام جمہوریت کی ضد ہے ، راقم الحروف کواس سے ہر گز اتفاق نہیں ۔ صدارتی نظام میں ملک کا صدر عوام کا بلا واسطہ یا بالواسطہ منتخب نمائندہ ہوتا ہے جسے عوام کیلئے کچھ کرنے کا اختیار ہوتا ہے وہ ربر سٹیمپ سربراہ نہیں ہوتا۔ پارلیمانی نظام کے بر عکس صدر انتہائی مختصر اورقابل وزراء پر مشتمل کابینہ سے کام چلاسکتا ہے ۔صدر کے پاس ٹیکنو کریٹس کی خدمات سے استفادہ کرنے کا آپشن موجود ہوتا ہے ۔یوں خزانے پر بھی کم سے کم بوجھ پڑتا ہے۔وہ ساتھیوں کی خوشنودی کیلئے خزانہ لٹائے بغیر رائج الوقت نظام کی نسبت زیادہ اعتماد سے خدمات سرانجام دے سکتا ہے۔ کیونکہ معقول وجوہات پر مواخذہ تو ہو سکتا ہے مگر بغیر وجہ بتائے محض پارلیمان کی اکثریت کھونے پرصدر کو منصب صدارت سے فارغ ہونے کا خدشہ نہیں ہوتا۔ وہ ہر قاتل، ڈاکو، چور اور ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والے وائٹ کالر کرپٹ عناصر کو بے خوفی سے پراسیکیوٹ کرنے اور ان سے لوٹی ہوئی قومی دولت نکلوانے کی طاقت رکھتا ہے۔ ظاہر ہے اگر خزانہ لوٹ کھسوٹ سے محفوظ ہوگا تو عوام کیلئے کچھ بچے گا۔ یوں صدارتی نظام حکومت میں طویل المدتی پیداواری منصوبوں پر توجہ دی جا سکتی ہے جس سے عوام کیلئے بہتر روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیںاور عوام کی خوشحالی کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں اور یہی جمہوریت کی روح ہے ۔ جمہوریت میں عدلیہ کی آزادی لازمی جزو ہے اگر آئین عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دے تو صدارتی نظام عصر حاضر کے کسی بھی نظام سے زیادہ جمہوری ثابت ہو سکتا ہے ۔ جمہوریت میں انصاف شرط ہے۔ جو ڈ یشل کمیشن کے اندر سیاسی نمائندگی اور پارلیمانی کمیٹی کا وجود عدلیہ کی آزادی کیلئے کسی صورت ضروری نہیں ،عدلیہ میں بیرونی مشاورت مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے جو جمہوریت کی روح کے منافی ہے اگر آئینی ترمیم کے ذریعے ججز کے تقرر میں بیرونی مشاورت کا خاتمہ کر دیا جائے تو یہ فیصلہ جمہوریت کی روح کے زیادہ قریب ہوگا۔ صدارتی نظام میں جمہور کے حقوق کی زیادہ بہتر ضمانت موجود ہے۔ ویسے بھی بہتر ملکی سا لمیت اور وقار کی خاطر مضبوط مر کز ضروری ہوتا ہے اور صدارتی نظام مضبوط مرکز کا ضامن ہوتا ہے۔دنیا میں امریکی وقار کا راز مضبوط مرکز ہے ۔

مزیدخبریں