مجید نظامی کے ساتھی۔۔۔!

Jul 27, 2016

طیبہ ضیاءچیمہ

چھٹی کا زمانہ خواب ہوا۔ ہمیں اس زمانے میں بھی دیس سے بھولے بھٹکے کوئی چھٹی موصول ہو جاتی ہیں ۔ پرانے وقتوں کے مسلم لیگی اپنا دکھ سکھ شیئر کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی سننے والے محترم مجید نظامی اب اس دنیامیں نہیں رہے۔ آج جو چٹھی موصول ہوئی تو اداس دل تھوڑی دیر کے لیئے کھِل اٹھا ۔ یہ چھٹی نوّے سالہ مسلم لیگی ریاست علی خان باجوہ نے ارسال کی ہے۔ان بزرگوں کا شمار بھی میرے والد گرامی چودھری سردار احمد ضیاء اور محترم مجید نظامی کے ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ وطن عزیز کے روشن چراغوں میں سے ایک ہیں۔یہ بزرگ بھی مجید نظامی صاحب کے ہم عصر ہیں ۔ چونڈہ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔مرے کالج سے بی اے کیا۔ 1943میں کالج ہاسٹل کے کمرے میں ڈسٹرکٹ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن سیالکوٹ کی بنیاد رکھی۔ضلع بھر میں مسلم طلباء کو منظم کیا۔قائد اعظم کا تاریخی خیر مقدم کیا ۔سیالکوٹ شہر میں بینڈ کے ساتھ شاہانہ جلوس نکالا گیا۔مسلم لیگ کے زیر اہتمام شاندار عوامی جلسہ منعقد ہوا۔سٹیج پر تلاوت قرآن کے احترام میں قائداعظم نے سگریٹ بجھا دیا اور کھڑے ہو گئے جس کے نتیجہ میں تمام سامعین بھی کھڑے ہو گئے۔قائد کی انگریزی میں تقریر کا جناب سردار عبدالرب نشتر نے اردو میں ترجمہ کیا۔قائد نے کمال محبت سے مرے کالج ہال میں مسلم طلباء سے خطاب فرمایا۔مرے کالج کے طلبا نے بھاری اکثریت سے کالج سٹوڈنٹس یونین کا صدر اور چودھری سردار احمد ضیاء ( راقم کے والد ) کو جنرل سیکرٹری منتخب کیا۔1946کے ہندوستان میں جنرل الیکشن میں طلبا تنظیم نے اسمبلیوں میں مسلم لیگ کے امید واروں کی بھر پور مدد کی جس کے نتیجہ میں 80فیصد سے زیادہ مسلم لیگی کامیاب ہوئے جو قیام پاکستان کا باعث بنے۔محترم ریاست علی خان باجوہ کو طلباتنظیم کا صدر منتخب کیا گیا۔لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کے کیمپوں میں طلباء نے دن رات خدمات انجام دیں ۔باجوہ صاحب کے والد کا بھٹہ کا کاروبار تھا۔ ہندو ڈپٹی کمشنر نے ان کے والد صاحب کو مسلم لیگ کی حمایت ترک نہ کرنے کی بنا پر ان کے دادا کو ذیلداری سے معطل کر دیا اور بھٹہ کے کوئلہ کا کوٹہ بھی بند کر دیا۔ان کے والد نصراللہ خان باجوہ نے چونڈہ میں انجمن تبلیغ السلام قائم کی جس کی کوششوں سے ہزاروں غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔اس پر مہاتما گاندھی نے احتجاج کیا کہ ایک ایک چھوٹی سی انجمن نے ہزاروں کو مسلمان کر لیا۔مسلم لیگی ہونے کی پاداش میں باجوہ صاحب کے والد صاحب کو جیل میں بند کر دیا گیا۔ ان کے والد نے جیل میں بھی ایک مسیحی کو مسلمان کر دیا۔یہ خبر نوائے وقت میں’’سنت یوسفی‘‘ کے عنوان سے شائع کی گئی۔ریاست علی خان صاحب کودادا اور والد کی سیاسی و مذہبی سرگرمیوں کی وجہ سے اپنے زمانے کی معتبر شخصیات سے ملاقات کا موقع 

ملا۔جناب حمید نظامی صاحب سے بھی لاہور نوائے وقت کے دفتر میں ملاقات ہوتی رہتی۔کانگریسی رہنمائوں کے ایماء پر تارا سنگھ نے پنجاب اسمبلی کے باہر تلوار گھما کر ملک میں مسلمانوں کے خلاف فساد شروع کر دیا۔لاہور میں خون سے لت پت ریل کی بوگیاں آنا شروع ہو گئیں۔ قتل و غارت گری کا ہولناک بازار گرم تھا۔ عصمتیں لٹ رہی تھیں۔جائیدادوں کو نذرآتش کیا جا رہا تھا۔والٹن روڈ پر بہت بڑا مہاجرکیمپ قائم کیا گیا، جہاں قائد اعظم غمزدہ ہو کر مہاجرین کو ملنے آئے تھے۔چٹھی کے آخر میں انکل ریاست علی باوجوہ نے اپنی وہ روداد بھی رقم کی جس کا تعلق اوور سیز پنجاب کمیشن سے ہے۔ قائد کے اس سپاہی کی اراضی پر ناجائز قبضہ کر لیا گیا جس کے حصول کے لیئے کئی حکومتوں سے داد رسی کر چکے ہیں مگر بیٹے کے پاس کینیڈا میں مقیم ہونے کی وجہ سے کسی نے ان کی فریاد نہیں سنی۔ ہمارے بزرگوں کے ساتھ یہی سلوک ہوتا چلا آرہاہے اور مسلم لیگ کے دور حکومت میں بھی بزرگوں کی داد رسی نہیں ہو پائی۔ چھٹی کے آخر میں محترم ریاست علی خان باجوہ لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ نعرہ پہلی مرتبہ ہاسٹل میں میرے کمرے میں میرے ہم جماعت اور شاعر محمد اصغر سودائی کے منہ سے نکلا تھا جسے ہم نے پورے ملک میں پھیلا دیا۔پرانے وقتوں کے مسلم لیگی بزرگوں کی خوبصورت تحریر نے آنکھیں نم کر دیں ۔ یہ چند بزرگ جو ابھی حیات ہیں ،ہمیں ان کی قدر نہیں ۔ ان کی قدر کرنے والا بزرگ مجید نظامی چلا گیا۔ آج محترم مجید نظامی کی دوسری برسی ہے۔دل بے حد مغموم ہے۔ بزرگوں کی چٹھی سے مجید نظامی کی محبت کی خوشبو آرہی ہے۔ بزرگوں کے جانے سے پاکستان اپنے محسنوں سے محروم ہو رہاہے۔

مزیدخبریں