معراج محمد خاں کے ساتھ میری ذاتی نیاز مندی تو کبھی نہیں رہی مگر ان کی ذات کے ساتھ سیاست کا ایک دور منسوب ہے اور اس ناطے سے 70 اور 80 کی دہائی کے دوران معراج محمد خاں کی سیاست میں اصول پسندی‘ اقدار کی نگہبانی اور شعلہ بیانی میرے مشاہدے میں رہی اس لئے ان کی وفات کی خبر سن کر میں آزردہ بھی ہوا اور سیاست کی قدریں اٹھتے دیکھ کر مجھے مایوسی کا احساس بھی ہوا۔ صحافیوں کی ٹریڈ یونین میں ایک بڑا نام منہاج برنا کا تھا جو سقوط ڈھاکہ سے پہلے والے متحدہ پاکستان میں بھی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے صدر تھے اور میرے پیشہ صحافت میںآنے کے وقت‘ صحافت میں انہی کا طوطی بولتا تھا۔ 1977ء میں منہاج برنا دوسری ٹرم کیلئے رشید صدیقی کے مقابلہ میں صرف ایک ووٹ سے کامیاب ہوئے۔ صحافیوں کی ٹریڈ یونین میں بھی دائیں بائیں کی لائن کھنچی ہوئی تھی اور رشید صدیقی دائیں بازو کے نمائندہ سمجھے جاتے تھے۔ عام حالات میں تو ایک ووٹ سے کامیابی کو بھی مخالفین کی جانب سے خوشدلی سے قبول کر لیا جاتا ہے مگر 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا کر اقتدار سنبھالا اور اسلامی نظام کی ترویج کا نعرہ لگایا تو دیگر ملکی اداروں کی طرح صحافت اور صحافیوں کی ٹریڈ یونین کی قدریں بھی بدلنا شروع ہو گئیں اور اس میں ’’دائیں بازو‘‘ کو تقویت حاصل ہونا شروع ہو گئی۔ اسی تناظر میں رشید صدیقی نے منہاج برنا کی ایک ووٹ سے کامیابی متنازعہ بنا دی اور پی ایف یو جے کے ازسرنو انتخابات کا تقاضہ شروع کر دیا۔ یہ تقاضہ تسلیم نہ ہوا تو وہ ضیاء حکومت کے مقاصد کا چارہ بن گئے اور حکومتی سرپرستی میں اپنے نام سے پی ایف یو جے کا گروپ تشکیل دے دیا۔ یہ تقسیم ایسی گلے پڑی کہ آج تک صحافی برادری اس کی اسیر ہے۔ اس تقسیم میں جرنیلی آمر کا مخالف ہونے کے باوجود میرا تعلق منہاج برنا مخالف گروپ کے ساتھ قائم ہوا جو اس تنظیم کے آئین کی پاسداری کے حوالے سے تھا۔ اسی بنیاد پر رشید صدیقی بھی راندۂ درگاہ ہوئے اور آئین کی پاسداری کا تقاضہ کرنے والے برنا گروپ اور رشید صدیقی گروپ کے ارکان نے پی ایف یو جے کو آئین کے مطابق چلانے کی خاطر دستور گروپ کے نام سے پی ایف یو جے کا نیا گروپ تشکیل دے دیا۔ آج منہاج برنا میں سے دو مزید گروپ نکل آئے ہیں جبکہ دستور گروپ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ منہاج برنا اللہ کو پیارے ہو چکے اور رشید صدیقی ضعیف العمری میں گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہے ہیں مگر پی ایف یو جے میں تقسیم کی جو بنیاد رشید صدیقی نے رکھی تھی وہ دائیں بائیں کے لیڈران کی ذاتی انا پرستیوں اور مفادات کے باعث آج تک نہیں توڑی جا سکی۔ میں نے دستور گروپ میں پی یو جے اور پھر پی ایف یو جے کے صدر کی حیثیت سے صحافی برادری کی گروہ بندی ختم کرانے کی اپنے طور پر کوششیں کی تھیں جس میں برنا گروپ کے اورنگزیب اور چودھری خادم حسین نے بھی کردار ادا کیا مگر ہماری کوششیں بارآور نہ ہو سکیں۔
ماضی کے یہ سارے اوراق معراج محمد خاں کی وفات کی خبر سن کر ہی میری آنکھوں کے سامنے آئے ہیں جو منہاج برنا کے چھوٹے بھائی تھے اور اس ناطے سے بھی صحافی برادری میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ منہاج برنا کے مقابلے میں وہ زیادہ سوشل آدمی تھے جن کی ترقی پسندانہ سوچ پر ان کے سیاسی مخالفین بھی معترف ہوا کرتے تھے۔ بلوچ پشتون ہونے کے ناطے غیرت والے جذبات ان کے اضطراری پن سے بخوبی نظر آتے تھے۔ تعلیم کیلئے کوئٹہ سے کراچی گئے اور پھر وہیں کے ہو رہے۔ کراچی یونیورسٹی میں این ایس ایف کے سرگرم رکن رہے اور اس کے صدر کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1968ء میں اپنے ’’ڈیڈی‘‘ ایوب خاں سے بغاوت کر کے وزارت خارجہ چھوڑی اور آمریت مخالف سیاست کیلئے میدان میں اتر آئے تو اس وقت ان کا دم بھرنے والے جوشیلے طالب علم رہنماؤں میں معراج محمد خاں پیش پیش تھے جن کی شعلہ بیانی سے خود بھٹو بھی متاثر ہوئے اور انہیں اپنا سیاسی جانشین قرار دے ڈالا۔ بھٹو کے ساتھ پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنے والوں میں بھی وہ شامل تھے۔ 71ء کے انتخابات میں بھٹو فلاسفی کے تحت پیپلز پارٹی کے جن کارکنوں نے میدانِ سیاست میں بڑے بڑے برج الٹائے ان میں معراج محمد خاں بھی شامل تھے جو بھٹو کی پہلی کابینہ میں وزیر محنت بنے مگر ان کی وزارت محنت کے دوران ہی کراچی میں مزدوروں کو انتظامی ریاستی مشینری کے جبر و تشدد کا نشانہ بننا پڑا تو معراج محمد خاں احتجاجاً کابینہ سے مستعفی ہو کر مزدوروں کے ساتھ آ کھڑے ہوئے چنانچہ وہ بھی ریاستی جبر کے ہتھے چڑھے اور پھر اپنے ممدوح کی اپنی ہی حکومت کے خلاف صف آراء ہو گئے۔ بھٹو کے دوسرے باغیوں میں جے اے رحیم اور مختار رانا شامل تھے جنہوں نے معراج محمد خاں ہی کی طرح اپنے ممدوح کی حکومت میں ریاستی جبر و تشدد کو بھگتا۔ معراج محمد خان نے اپنی ترقی پسندانہ سوچ کو پروان چڑھانے کیلئے قومی محاذ آزادی کے نام سے نئی سیاسی جماعت قائم کر لی جس نے پہلے بھٹو آمریت کو چیلنج کیا اور جب پی این اے کی تحریک کے نتیجہ میں ملک میں ضیاء آمریت مسلط ہوئی تو اس آمریت کو چیلنج کرتے ہوئے معراج محمد خاں اپنے ممدوح کی پیپلز پارٹی کے حلیف بن گئے اور اسی بنیاد پر وہ 1981ء میں تشکیل پانے والے اپوزیشن اتحاد ایم آر ڈی کا بھی حصہ بنے۔ مجھے نوائے وقت کے رپورٹر کی حیثیت سے ضیاء مخالف تحریک ایم آر ڈی کی سات سال پر محیط کٹھن جدوجہد کی لاہور میں سرگرمیوں کی کوریج کا موقع ملتا رہا اور اس طرح ایم آر ڈی کے قائدین اور کارکنوں سے بھی یاد اللہ ہوئی۔ ان میں سے مزدور کسان پارٹی کے سربراہ فتحیاب علی خاں کے ساتھ میری زیادہ دوستی رہی جن کے سیکرٹری جنرل سردار شوکت علی ہوا کرتے تھے جبکہ قومی محاذ آزادی کے عہدے داروں میں معراج محمد خاں سے زیادہ اس کے سیکرٹری جنرل سید اقبال حیدر سے تعلقداری بنی جو کراچی کی معروف سیاسی شخصیت تھے۔ ان کے ساتھ لاہور میں قومی محاذ آزادی کے سینئر نائب صدر پرویز صالح اور پھر رانا ذوالقرنین سے بھی دوستداری چل نکلی۔ عوامی شاعر حبیب جالب بھی زیادہ تر انہی کے جلو میں رہتے تھے ۔ایم آر ڈی کی پوری تحریک کے دوران انفرادی قید‘ کوڑوں سے اجتماعی گرفتاریوں تک ایم آر ڈی کے قائدین اور کارکنوں نے ثابت قدمی کی نادر مثالیں قائم کیں جس کا آج کی اپوزیشن کی سیاست میں کہیں عشر عشیر بھی نظر نہیں آتا۔ مگر اس کٹھن جدوجہد کے نتیجہ میں 1988ء کے انتخابات کی فضا استوار ہوئی اور پھر بینظیر بھٹو کے اقتدار کی راہ ہموار ہوئی تو پیپلز پارٹی کی قیادت کی روائتی بے وفائی کی عادت نے ایم آر ڈی کو تتر بتر کرنے کے علاوہ سیاسی قدروں کا بھی جنازہ نکال دیا۔ اس دو رخی سیاست نے معراج محمد خاں کو پھر مایوس کیا اور وہ اپوزیشن ہی نہیں‘ مجموعی طور پر سیاست سے بھی الگ تھلگ ہو کر گوشہ نشین ہو گئے۔ پھر انہیں عمران خاں میں امید کی کرن نظر آئی تو سیاسی اقدار کے احیاء کی خاطر وہ ان کے ساتھ ہو لئے اور اپنی پارٹی قومی محاذ آزادی کو لپیٹ کر تحریک انصاف کا حصہ بن گئے۔ اس کے پہلے سیکرٹری جنرل بنے مگر اس شعر کے مصداق کہ؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
معراج محمد خاںکو عمران خاں کے ہمقدم ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد ان میں چھپی آمریت کا احساس ہو گیا اور وہ ان کا دامن بھی جھٹک کر باہر نکل آئے ۔
اس ناطے سے مجھے یہ المیہ بھی یاد آیا کہ عمران خاں سے بہتر سیاسی اقدار کی امیدیں وابستہ کر کے ماضی کی تین بڑی جماعتوں تحریک استقلال‘ قومی محاذ آزادی اور پاکستان جمہوری پارٹی نے اپنی ساری سیاسی قدریں اور نیک نامی بھی برباد کر دی ہے ۔ تحریک استقلال کے اصغر خاں نے اپنے پورے سیاسی قد کاٹھ کو تج کر عمران خاں کا دم بھرا۔ اسی طرح معراج محمد خاں نے اپنی ساری شعلہ بیانی عمران خاں کے حوالے کر دی جبکہ نوابزادہ نصراللہ خاں کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے نوابزادہ منصور احمد خاں نے اپنے والد کی جمہوری پارٹی کی ساری بساط اٹھا کر عمران خاں کے سپرد کر دی۔ آج یہ تینوں سیاسی جماعتیں بھی نہیں رہیں اور ان سے وابستہ سیاسی اقدار بھی تحریک انصاف کی راہداریوں میں گم ہو گئی ہیں۔ معراج محمد خاں اپنے قد کاٹھ کے ساتھ ہی سیاست میں موجود رہتے تو یقیناً سیاسی اقدار بھی زندہ رہتیں۔ ان سیاسی اقدار کے رکھوالے میر غوث بخش بزنجو‘ شیرباز خاں مزاری‘ نوابزادہ نصراللہ خاں اور معراج محمد خاں اس جہان سے گزر چکے ہیں تو ہماری سیاست میں اب سیاسی قدروں کی گذر اوقات بھی کیسے ہو سکتی ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔