آج بہت عجیب دن ہے۔ اپنے عہد میں پاکستان کے بہت بڑے آدمی مجید نظامی کی برسی ہے۔ وہ ایک بھرپور کامیاب بامقصد اور اچھی زندگی گزار کر چلے گئے آج میں نظامی صاحب کے حوالے سے بات کروں گا اور ’’صدر‘‘ زرداری کا یوم پیدائش بھی ہے۔ ان کیلئے جیالے تقریبات کر رہے ہیں اور نظامی صاحب کے یوم وفات کو ایک بڑے قومی دن کی طرح منانا چاہیے۔ اسے سرکاری طور پر منانے کا اعلان کیا جائے۔ بڑے میاں شریف اپنے دونوں بیٹوں نواز شریف اور شہباز شریف کو لے کے آپ کے پاس آئے اور پاکستان کی صدارت کی پیشکش کی۔ نظامی صاحب نے فرمایا کہ میرے لئے نوائے وقت کی ادارت کی کرسی آپ کی دی ہوئی پاکستان کی صدارت کی کرسی سے بہتر ہے۔ اب اس کرسی پر نظامی صاحب کی صاحبزادی رمیزہ نظامی بیٹھی ہیں میرا خیال ہے کہ نظامی صاحب اپنی بیٹی رمیزہ نظامی کو ہر طرح بریف کرکے گئے ہیں۔ رمیزہ نظامی ان کی امانت کی مکمل طور پر حفاظت کر رہی ہیں۔ مجید نظامی نے کہا کہ اگر میں صدر ہو گیا تو نواز شریف چار دن بھی حکومت نہیں کر سکیں گے۔ جیسی حکومت میں چاہتا ہوں وہ نواز شریف چلانے کیلئے تیار نہ ہوں گے وہ یہ حکومت دو دن بھی نہیں چلا سکتے۔
شہباز شریف بھی مجید نظامی کے بہت قریب رہے۔ ان کی قبر پر آخر وقت تک موجود تھے اور پھر رمیزہ نظامی کے پاس آئے اور انہیں حوصلہ دیا مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد نواز شریف پر عالمی پریشر بہت تھا مگر مجید نظامی نے کہا کہ دھماکے کرو ورنہ ہم تمہارا دھماکہ کر دیں گے۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد نواز شریف نے پیغام دیا کہ میں نے دھماکے کر دیئے اب میرا دھماکہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
مجید نظامی غالباً سی پی این ای کے صدر تھے صدر جنرل ضیاء میٹنگ میں مہمان خصوصی تھے۔ نظامی صاحب نے زبردست تقریر کی۔ لوگ حیران تھے کہ اب صدر جنرل ضیاء کیا کہیں گے۔ وہ سٹیج پر آئے اور کہا نوائے وقت کی پیشانی پر لکھا ہوتا ہے۔ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا بہترین جہاد ہے۔ مگر میں تو نظامی صاحب کے سامنے ایک صابر سلطان کی طرح ہاتھ باندھے ہوئے کھڑا ہوا ہوں۔ لوگوں نے بہت تالیاں بجائیں۔ نظامی صاحب نے بھی اس بات کو انجوائے کیا۔
مجید نظامی مستحکم شخصیت کے کشادہ دل آدمی تھے۔ وہ پاکستان کے غیر مشروط حامی تھے مگر انسان کی عظمت کے بھی بہت قائل تھے۔
مجید نظامی نے مادر ملت کا پوری طرح ساتھ دیا انہیں مادر ملت کا خطاب بھی نظامی صاحب نے دیا تھا۔ وہ دھاندلی سے جیتنے والے صدر جنرل ایوب کے خلاف احتجاجی طور پر گوشہ نشیں ہو گئیں۔ آخر وقت تک مجید نظامی مادر ملت کیلئے ایک قومی پاسبان کی طرح موجود رہے۔ مادر ملت کی حمایت کا واضح مطلب یہ تھا کہ مجید نظامی قومی سطح پر خواتین کے کردار کو بہت اہمیت دیتے تھے اگر مادر ملت جیت گئی ہوتیں تو آج پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔
نوائے وقت ایک قومی ادارہ ہے۔ وہ یہ سب ورثہ اور اثاثہ اپنی اہل بیٹی رمیزہ نظامی کے سپرد کر گئے ہیں وہ بہت حوصلے اور استقامت سے یہ فریضہ ادا کر رہی ہیں۔ نوائے وقت پبلی کیشنز پورے بانکپن کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ رمیزہ نظامی نے جس عمر میں نوائے وقت پبلی کیشنز کی ادارت سنبھالی ہے، مجید نظامی کی عمر بھی تقریباً اتنی ہی تھی۔ جب وہ ایڈیٹر بنے تھے۔
نوائے وقت کے بانی حمید نظامی کو اتنا موقع نہ ملا، مجید نظامی نے بہت جذبے کے ساتھ نوائے وقت کی تعمیر کی۔ اب نوائے وقت کو سنبھالنے کی ذمہ داری رمیزہ نظامی کو ملی ہے۔ آجکل نوائے وقت کی پیشانی پر بانی حمید نظامی، معمار مجید نظامی اور ایڈیٹر رمیزہ نظامی لکھا ہوتا ہے جو اخبار کی پوری تاریخ کا خلاصہ ہے۔
مجید نظامی کی خدمات اور اخبار کیلئے بھرپور کردار کے حوالے سے ایک زبردست تقریب ادارہ نوائے وقت کی طرف سے منعقد ہونا چاہئے اور میری استدعا ہے کہ اس تاریخ ساز تقریب کی صدارت رمیزہ نظامی کریں۔ مگر انہوں نے نوائے وقت کی ادارت سنبھالنے سے اب تک کسی تقریب میں شرکت نہیں کی، یہ ان کی شخصیت کی ایک ادا ہے۔ مگر میری گزارش پر وہ ضرور توجہ فرمائیں۔
آج سابق صدر پاکستان صدر زرداری کا یوم پیدائش بھی ہے، انہیں یاد ہوگا کہ مجید نظامی نے سیاسی استقامت، قید و بند کی مسلسل صعوبتیں سہنے کی وجہ سے ’’مردِحُر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ یہ خبر نوائے وقت کے علاوہ بھی اخبارات میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے میں نے اپنے کالم میں محبوب و مرشد نظامی صاحب کے اس خطاب کی اہمیت اور حیثیت کا ذکر کیا اور اسے آصف زرداری کیلئے بہت بڑا اعزاز قرار دیا۔ اس کے بعد آصف زرداری نوائے وقت کے دفتر میں مجید نظامی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
یہ ان کی طرف سے اس اعزاز کو بہت بڑی نعمت تسلیم کرنے کا اظہار تشکر تھا۔ اس کے بعد وہ صدر پاکستان بنے۔ اس اعزاز میں صدر زرداری کی سیاسی بصیرت اور ہر طرح کی ٹائمنگز کو سمجھنے کی بھی خوبی تھی مگر نظامی صاحب کے خطاب کا بھی کردار تھا۔ وہ پاکستان کی صدارت اور اس خطاب کو اپنے دل میں یاد رکھیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے پانچ سال بڑے حوصلے، تدبر اور وقار کے ساتھ ایوان صدر میں گزارے۔ اس سے ان کی سیاسی حکمت عملی کی بلندی ظاہر ہوتی ہے۔ میرے خیال میں وہ اپنے عہد کے بہت بڑے سیاستدان ہیں۔ اس کیلئے پھر کبھی کالم لکھوں گا۔ عجیب اتفاق یہ بھی ہے کہ آج کے ہی دن سندھ کے سینئر ترین وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کو سبکدوش کیا جا رہا ہے۔ وہ پیپلز پارٹی اور بھٹو فیملی کے بہت بڑے وفاداروں اور جانثاروں میں ہیں۔