لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے کالعدم تنظیم کے مبینہ دہشت گرد قاری رحمت اللہ کا جیل ٹرائل ملتان سے لاہور منتقل کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔ فاضل عدالت نے قاری رحمت اللہ کی ٹرائل منتقلی کی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی نے قاری رحمت اللہ کیخلاف مختلف مقدمات درج کر رکھے ہیں جن کیخلاف لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں ٹرائل جاری تھا تاہم لاہور ہائیکورٹ انسداد دہشت گردی عدالت کو ٹرائل کرنے اور فیصلہ کرنے سے روک رکھا ہے، ملزم کی اہلیہ ایک شیر خوار بچے کی ماں ہے اور اسے ٹرائل کی پیروی میں لاہور سے ملتان جانا پڑتا ہے، محکمہ پراسیکیوشن کی طرف سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل عبدالصمد پیش ہوئے اور ملزم کیخلاف مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ عدالت میں پیش کی، ایڈیشنل پراسکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ ملتان جیل ٹرائل میں ملزم قاری رحمت اللہ کیخلاف چار گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہو چکے ہیں اور دو گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہونا باقی ہیں، ملزم رحمت اللہ کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ لدھیانوی گروپ کا دہشت گرد قرار دے چکی ہے، ٹرائل لاہور منتقل کیا گیا تو ٹرائل کورٹ کو نئے سرے سے گواہوں کے بیانات اور شہادتیں دیکھنا پڑیں گی جس سے ٹرائل تاخیر کا شکار ہو گا، ملزم کی اہلیہ نے شیر خوار بچے سمیت روسٹرم پر آکر موقف اختیار کیا کہ سی ٹی ڈی نے جھوٹا مقدمہ درج کیا ہے، ٹرائل کی پیروی میں اسے بچے سمیت ملتان جانا پڑتا ہے لہذا جیل ٹرائل لاہور منتقل کیا جائے، عدالت نے ملزم کی اہلیہ کو روسٹرم پر لانے پر وکیل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایسی روایت نہیں ہونی چاہیے کہ ملزموں کی خواتین بچوں سمیت روسٹرم پر آکر کیس پر اثرانداز ہونے کی کوشش کریں، اگر ایسی روایت پڑ گئی تو ہر ملزم اپنی بیوی اور بچوں کو آگے کر کے مقدمات پر اثر انداز ہوا کرے گا، عدالت نے تفصیلی دلائل سننے کے بعد مبینہ دہشت گرد کا جیل ٹرائل ملتان سے لاہور منتقل کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔