لاہور(وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ کے سات رکنی لارجر بنچ نے ہائیکورٹ کی صدارتی نشست اور علاقائی بنچوں کی حدود کے نئے سرے سے تعین کے معاملے پر عدالتی معاونین اور وکلاء سے یکم اگست کو مزید دلائل طلب کرلئے۔ عدالتی معاون بیرسٹر سید علی ظفر نے موقف اختیار کیا کہ آئین کے آرٹیکل ایک سو اٹھانوے کے تحت ڈویژن بنچوں کے قیام کا تو کہا گیا ہے لیکن یہ کہیں نہیں لکھا گیا کہ ڈویژن بنچ یا علاقائی بنچ بننے کے بعد اس بنچ میں آنے والے اضلاع اور علاقوں کے لوگ لاہور ہائیکورٹ کی صدارتی نشست پر درخواستیں دائر نہیں کر سکتے اور انصاف کیلئے لاہور ہائیکورٹ لاہور سے رجوع نہیں کر سکتے۔ سپریم کورٹ نے بھی 1995ء میں ہائیکورٹ کی حدود سے متعلق فیصلہ دیا تھا، اس فیصلے میں بھی یہ پابندی عائد نہیں کی گئی کہ علاقائی بنچوں کی حدود میں آنے والے اضلاع کے لوگ ہائیکورٹ کی صدارتی نشست لاہور میں انصاف کیلئے رجوع نہیں کر سکتے۔ پنجاب کے ہر شہری کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے علاقائی بنچ یا صدارتی نشست دونوں میں سے جہاں چاہے درخواست دائر کر سکے۔ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل نے بھی موقف اختیار کیا کہ پنجاب کے ہر شہری کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ علاقائی بنچ یا صدارتی نشست میں جہاں چاہے انصاف کیلئے رجوع کر سکتا ہے۔ عدالتی معاون حامد خان نے مزید مہلت کی استدعا کی جبکہ عاصمہ جہانگیر کی طرف سے لارجر بنچ کو بتایا گیا کہ وہ نجی مصروفیت کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکیں۔