اسلام اور پاکستان کا حامی ، مجید نظامی

وقت کے سینے میں پیوست ہونے والے لوگ ، ہر دور میں نیا راستہ دکھاتے ہیں۔ رب کائنات ان کو برتر خوبیوں کے ساتھ خاص مقصد کی تکمیل کے لئے بھیجتا ہے۔کائنات میں ایسی بہت شخصیات پیدا ہوئیں جن سے خلق خدا کو ہمیشہ نفع ملتا رہا۔ مجید نظامی ان خوبیوں کا مجموعہ تھے۔ سنجیدہ اور باوقار عزم و استقلال کا پیکر، وقت کا نباض ، دل کا فیاض ، فکر اقبال کے امین ، قائد کے خوابوں کی تاویل، مجید نظامی کی شخصیت پاکستان کے ہر طبقہ فکر کے لئے محترم ہے، اوراہل قلم کی آبرو ہیں۔اپنے بھائی کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے نہ کبھی اصولوں پر سودا کیا اور نہ ذاتی سطح پر کسی کمزور کا مظاہرہ کیا۔ حضرت اقبالؒ کا شعر ہے:
نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
یہی فقر اور نگاہ فقر وہ کشش اور مقناطیسیت ہے جو لوگوں کو مجید نظامی کی جانب کھینچتی تھی۔ اللہ کی خاص رحمت کے سائے میںہوتے ہوئے وہ لوگ ، سچ کہتے ہیں، سچ لکھتے ہیںاور سچ کوبرداشت بھی کرتے ہیں۔ مجید نظامی بھی ایسے انسانوں میں سے تھے۔مجید نظامی ایسے انسان تھے جنھوں نے سب کچھ اپنے دامن میں سمیٹنے کی بجائے، سارے تمغے سینے پر سجانے کی بجائے، سارے کریڈٹ والدین، بڑے بھائی اور شریک حیات کے کھاتے میں ڈال دیئے اور اپنے لئے صرف چیلنج رکھ لئے کبھی فوجی لباس والوں کے تو کبھی سول لباس والوں کے بڑے بڑے لیڈر، فوج سے درخواست کرتے تھے کہ ہماری مدد کرو، ہمیں بچائو، ہمیں زندہ رہنے میں مدد دو اور جناب مجید نظامی فوج سے کہتے تھے کہ ہمیں ہمارا کشمیرلے کر دو، بنگلہ دیش کے قیام کا قرض واپس کرو، ملک کا دفاع کرو، ملک کی حکمرانی کا خیال دل سے نکال دو۔آپ کبھی کسی مرحلہ پر ڈرتے، جھجکتے، دبتے اور جھکتے نہیں۔
مجید نظامی نے اپنے نام کے لغوی معنوں کو مکمل طور پر عملی جامہ پہنایا۔ نظامی کا مطلب بہترین فائٹر ہے، مجید بھی ظالم کے خلاف جہاد کرنے والے کو کہا جاتا ہے اس طرح مجید نظامی اپنے عمل سے ثابت کرتے رہے کہ وہ بہترین فائٹر ہیں اس کے ساتھ پنے والدین کے نام کو بھی
جلا بخثی ہے جنھوں نے ان کا نام رکھا۔ مجید نظامی صاحب کی زندگی حق و صداقت سے عبارت ہے۔ اس صحافتی دیانت کی وجہ سے انہیں ’’آبروئے صحافت‘‘ کہا جاتا ہے۔پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم لیاقت علی خان نے جناب مجید نظامی کو ان کی خدمات کے اعتراف میں مجاہد پاکستان کی سند سے نوازا اور ایک تلوار انعام دی۔ انہوں نے تلوار تو کبھی استعمال نہیں کی اور نہ ہی اس کی نوبت آئی ان کا قلم ہی ضرب کلیمی کی طاقت رکھتا تھا جس سے اہل اقتدار ہمیشہ لرزہ براندام رہتے تھے۔ مجید نظامی صاحب نے ہر مشکل وقت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ یہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ وہ عامل صحافیوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جن کا کسی سے مطلب نہ خوشامد سے غرض تھا ۔
مرحوم صدر ضیاء الحق نے محترم مجید نظامی سے درخواست کہ آپ میرے ساتھ انڈیا چلیں! تو نظامی صاحب نے کہا کہ اگر ٹینک پر چلتے ہیں تو میں حاضر ہوں ،کہنے لگے ! ابھی ٹینک پر جانے کی تو ہمت نہیں۔ نظامی صاحب نے کہا !’’جب ہمت آ جائے تو پھر بتا دیجئے گا ۔ میری کوئی مجبوری نہیں آپ کی کوئی مجبوری ہو گی یہ حقیقت ہے کہ میں ابھی تک انڈیا نہیں گیا اور جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا میں انڈیا نہیں جائوں گا‘۔ جناب مجید نظامی نے ایوب خان اور نواب آف کالا باغ کے عہد ستم میں نوائے وقت ہی کو سنبھالا ، بلکہ ان کے جاہ و جلال کے مقابلے میں قلندرانہ جرات کا مظاہرہ بھی کیا۔ یہ مجید نظامی ہی تھے جو اخبارات کے صفحات پر بھی اور محفلوں اور مجلسوں میں بھی آمریت کو آئینہ دکھاتے تھے۔ مجید نظامی کے نزدیک آئیڈیل جمہوریت وہی ہے جو قائداعظمؒ اور علامہ اقبال کے اصولوں پر ہو۔ اسلامی جمہوری مملکت ہو۔
مجید نظامی مرحوم نے نہ صرف خود پاکستان اور اس کے اساسی نظرئیے کا علم بلند کئے رکھا بلکہ انہوں نے اس شمع کو اس طرح روشن کر دیا ہے کہ زمانہ اس کی روشنی سے ہمیشہ منور ہوتا رہے گا۔ سرسید احمدخان نے اپنی دوراندیشی ، مثبت انداز فکر اور اخلاص و عمل پیہم کی بدولت منتشر افراد کے ہجوم کو ایک قوم بنا ڈالا اور پھر اس قوم نے حصول پاکستان کی شکل میں ایک محیرالعقوم کارنامہ سر انجام دیا ۔ آج جناب مجید نظامی کے ملک و قوم سے لگائو اور پاکستانی انداز فکر و عمل نے منتشرالخیال پاکستانیوں کو پھر سے ایک سمت عطا کر رکھی ہے اور انہوں وہ مرکز فکر اور مقصد حیات عطا کیا ہے کہ آج ملک کی نظریاتی بنیادیں خطرات سے باہر ہیں۔آپ نے اپنے احباب اور کارکنان کے ذریعے سے نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لئے محافظان نظریہ پاکستان پر مشتمل ایک فوج کھڑی کر دی ہے۔
مجید نظامی عصر حاضر میںایک سچے پاکستانی اور بجاطور پر دوسرے پاکستانیوں کے لئے نمونہ عمل ہیں۔ آپ نے جس طرح اسلاف کے کارناموں کو زندہ رکھنے کے لئے تگ و دو کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...