لواری ٹنل

وزیراعظم نوازشریف نے19جولائی کو انتہائی اہم منصوبے لواری ٹنل کا افتتاح کردیاہے یہ اہم منصوبہ گزشتہ43سالوں سے التواء کا شکار تھا، اس کا آغاز1974ء میں کیا گیا مگر بعدازاں وسائل کی کمی اور حکومتی عدم توجہی کے باعث اس پر کام رک گیا، 2004ء میں اس پر دوبارہ کام کا آغاز ہوا مگر ایک مرتبہ پھر یہ پایہ تکمیل کو پہنچے بغیر ہی رک گیا، موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف کی خصوصی ہدایت اور ذاتی دلچسپی کے باعث 2014ء میں اس اہم منصوبے پر کام کا آغاز پورے زور و شور سے کیا گیا۔ اگر محل وقوع کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ٹنل چترال کو ملک کے دوسرے حصوں سے ملانے والی اہم شاہراہ چترال، دیر، چکدرہ پر واقع ہے اس سرنگ کے نہ ہونے کی وجہ سے موسم سرما کے چھ ماہ کے دوران چترال کا ملک کے دوسرے حصوں سے زمینی رابطہ منقطع ہو جاتا تھا جس کی وجہ سے انسانی زندگی شدید مشکلات کا شکار رہتی تھی، موسم گرما کے دوران بھی لوگوں کو دشوار گزار پہاڑی راستے سے گزر کر چترال آنا جانا پڑتا تھا جس کی وجہ سے نہ صرف وقت کا ضیاع ہوتا تھا بلکہ سفری اخراجات بھی بہت زیادہ تھے۔ چترال وطن عزیز کا ایک انتہائی خوبصورت خطہ ہے جوکہ سیاحت کے لحاظ سے بھی بہت مشہور ہے، اس کے علاوہ اپنے محل وقوع کے لحاظ سے بھی اس کی قدر و اہمیت بہت زیادہ ہے۔ سرنگ نہ ہونے کی وجہ سے اس علاقے کی سیاحت بھی بری طرح متاثر ہوتی تھی جبکہ قدرتی آفات کی صورت میں امدادی سرگرمیوں میں بھی شدید مشکلات پیدا ہوتی تھیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کام شروع ہونے کے بعد اس خطے اور بالخصوص شاہراہ کی اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ اس شاہراہ کو استعمال کرتے ہوئے گلگت سے ایک متبادل راستے کے ذریعے بھی آمد و رفت ہوسکتی ہے۔ گلگت، شندور، نستوج، چترال، چکدرہ روڈ کوCPEC کا حصہ بنادیا گیا ہے لہٰذا لواری ٹنل کی تعمیر کے بعد اب اس روٹ پر کام بھی شروع ہوسکے گا، اس منصوبے سے پورے خطے کی شکل تبدیل ہوجائے گی اور لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوجائے گا۔ دورافتادہ اور پسماندگی کا شکار خطہ چترال اب مستقبل قریب میں ایک خوشحال اور تیزی سے ترقی کرتا ہوا علاقہ بن جائے گا۔ کسی بھی علاقے کی معاشی ترقی کیلئے ذرائع آمد و رفت کا بند ہونا ایک لازمی اور بنیادی امر ہے، لواری ٹنل منصوبے کے نام پر ماضی میں کئی سیاسی جماعتوں اور شخصیات نے سیاست کی ہے اور لوگوں سے جھوٹے وعدے کرکے انتخابات میں کامیابی بھی حاصل کی مگر عملاً کچھ نہیں کیا۔ اب اس کی تکمیل کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے عوام کے دل جیت لیے ہیں جس پر وہ بھرپور مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس موقع پر ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے نہ صرف لواری ٹنل منصوبے کی اہمیت بیان کی بلکہ چترال اور اپردیر کے عوام کیلئے متعدد منصوبوں کا اعلان بھی کیا جن میں تعلیم، صحت اور ذرائع مواصلات کے کئی اہم منصوبے بھی شامل ہیں، عوامی سیاست کا محور اور مقصد بھی عوام کی فلاح وبہبود ہونا چاہیے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا، لواری ٹنل جیسے دوسرے التواء کا شکار اور تیار منصوبوں پر بھی تیزی سے کام جاری ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ چند ماہ میں وہ بھی تکمیل پاجائیں گے ان میں کچھی کینال، نیلم، جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور اسلام آباد کے نئے ایئرپورٹ کے منصوبے شامل ہیں، اس کے علاوہ بہت سے میگا پراجیکٹ بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں اور قوی امید ہے کہ آئندہ سال کے اوائل میں وہ بھی مکمل ہوجائیں گے، ان میں نمایاں اور اہم منصوبے توانائی اور ذرائع آمد و رفت سے متعلق ہیں،60 کی دہائی کے بعد اتنے بڑے اور اہمیت کے حامل منصوبوں پر کام اب ہورہا ہے، جس کی بدولت مستقبل میں معاشی ترقی کا عمل تیز ہوگا اور خوشحالی کی منزل کا حصول بھی آسان ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ سارا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رہے چاہے حکومت کوئی بھی آئے یا جائے۔ اس عمل کو سیاسی دشمن عناد اور ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھانا ایک بہت بڑی ملک دشمنی ہوگی۔
تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیشہ سے یہ ہوتا آیا ہے کہ نئے آنے والے معتصبانہ رویے کو اپناتے ہوئے ملکی استحکام و مفاد کیلئے کئے جانے والے کاموں کو مکمل نہ ہونے دینے کیلئے نہ صرف ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے بلکہ اس کام میں بہت سے کیڑے بھی نکالے جاتے ہیں حالانکہ جو بھی کام ملک کی ترقی کیلئے کیا جاتا ہے اس میں سیاستدانوں کو یا حکمرانوں کو اپنے نجی مفاد اور نجی دشمنیاں بالائے طاق رکھ کر سوچنا چاہیے کیونکہ ملک تو قائم رہتے ہیں مگرحکمران اور سیاستدان آتے جاتے رہتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن