حضرت مجید نظامی کی زندگی ایک طویل جدوجہد پر مشتمل دکھائی دیتی ہے۔مستقل مزاجی، رواداری، اصول پرڈٹ جانا،آپ کی شخصیت کا خاصہ تھاآپ کی زندگی کا ہر پہلو قابل تقلید ہر جہت کامرانیوںسے عبارت ہے۔ستر سالہ صحافتی زندگی میں کہیں بھول دکھائی دیتی ہے نہ دامن میں کوئی داغ نظر آئیگا۔یہی حال نجی زندگی میں ملے گا۔ایک فرمانبردار بیٹا ، ایک بازو شمشیر بھائی ، ایک محبت کرنے والا شوہر ، شفیق باپ ، ایک قابل اعتماد اور باوقار دوست ، محنتی او رذہین طالب علم ایم ایس ایف کے نظریاتی کارکن ، سچے عاشق رسول ﷺ، قائد اعظم اور علامہ اقبال کو پیرو مرشد تصور کرتے ۔نظریہ پاکستان کے شمشیر بردار محافظ ، مسلم لیگ کی یکجہتی اور اتحاد کے بیتاب متمنی۔آپ سراپا پاکستان اور نظریہ پاکستان شخصیت کے حامل تھے ۔ جمہوریت کیلئے زندگی بھر کوشاں رہے ۔ آمروں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جاتے جس کی خاطر شدید خسارہ اٹھانا پڑا مگر موقف میں لچک کبھی نہ دکھائی ۔سیاسی جدوجہد کرنیوالے کارکنان کی ہمیشہ پشت پناہی فرماتے خواہ وہ کسی جماعت یا نظریے کا ہوتا ۔ مسلم لیگی کارکنان کسی سطح کا ہو عزت و تکریم سے ملتے ۔ زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے مستقل معاونت و رہنمائی کرتے جس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں ۔ راقم جیسے کم علم اور کج فہم کو صرف نظریاتی کارکن ہونے کے باعث نوائے وقت جیسے تحریک پاکستان کے ترجمان و پاسبان ادارے میں کالم لکھنے کی دعو ت دیکر کالم نویسوں کی صف میں کھڑا کرنا جناب کی عظیم شخصیت کا اعجاز ہے ۔راقم کے دل میں قبلہ مجید نظامی کی شفقت اور وطن دوستی کی شمع آج بھی اسی تابانی و ضوفشانی سے روشن اور مزین ہے ۔ امام صحافت کی پوری زندگی پاکستان کی بقا ئ،استحکام اور نظریہ پاکستان کی ترویج و فروغ کی انتھک جدوجہد میں گزری ۔ آپ ہی کی رہنمائی ا ور رفاقت کے باعث حضرت غلام حیدر وائیں نے بیشمار نظریاتی ادارے قائم کئے ۔ بلاشبہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور ایوان کارکنان تحریک پاکستان مجید نظامی کی شب و روز توجہ اور نگرانی کے سبب ہی ایک باوقار اور بااعتماد قومی ادارہ بن پایا ۔روزانہ نوائے وقت کے دفتر جانے سے قبل نظریہ پاکستان ٹرسٹ ضرور تشریف لاتے۔ آپ نظریہ پاکستان کو اپنا عشق قرار دیتے ۔ یقینا شاہد رشید اور انکا نظم مقدس ادارے کو بام عروج پر پہنچانے میںقابل رشک کردار کا حامل ہے ۔ سیف اللہ چودھری ہوں یا محمد عثمان ، پروفیسر نعیم ، معاذ جانباز ، رفعت عمران تمام دوست جناب نظامی کی تربیت کے عکاس محسوس ہوتے ہیں ۔ حضرت نظامی سے راقم کا تعلق و تعارف تو مسلم لیگی کارکن کے طور پر دیرینہ تھا مگر میرا سلسلہ قربت ان بزرگوں سے تھا جو دولتانہ ممدوٹ لڑائی میں نظامی براداران سے اختلاف رکھتے تھے ۔ لہذا کبھی قریب جانے کا خیال ہی نہیں آیا مگر جب نظریہ پاکستان ٹرسٹ حاضری کا شوق بڑھا تو جناب نظامی کو اپنے تصور سے قطعا مختلف پایا ۔ اسی طرح والد بزرگ کی مسلم لیگی ہونے کے باعث نوائے وقت کا پیدائشی قاری تھا مگر نوائے وقت داخلے کا سبب روزنامہ دن میں میرا کالم (مجید نظامی بحضور قائداعظم) اور بردار محترم فضل حسین اعوان بنے ۔بعدازاں نظامی صاحب کی شفقت اور سرپرستی میری حیثیت سے کہیں زیادہ میسر آئی ۔خاص بات یہ ہے کہ راقم جب بھی دفترحاضر ہوا شرف باریابی عطا ہوئی ۔ اس سے بھی اہم یہ ہے کہ بقول برادر عزیز شفیق سلطان، نظامی صاحب کے نوائے وقت دفتر میں آخری دن کا آخری ملاقاتی راقم تھا جس کی تفصیل کیلئے علیحدہ کالم درکار ہے ۔ آپ نے دنیا فانی سے عالم بقا کا سفر 26جولائی 27رمضان المبارک لیلۃ القدر کی مقدس ساعتوں میں قرار پایا ۔جو پاکیزہ زندگی اور نیک سیرت کا ثمر عظیم ہے ۔رب کعبہ ہمیں حضرت مجید نظامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی وراثت پاکستان کی بقا اور استحکام اور نظریہ پاکستان کے احیاء کی کوششوں کی توفیق عطا فرمائے ۔اللہ آپ کے درجات کو جنت الفرادوس میں بلند سے بلند کرے۔