جناب مجیدنظامی … باتیں انکی یاد رہیں گی

Jul 27, 2017

سید خالد جاوید مشہدی

رمضان المبارک میں اخبارات کے خصوصاً لوکل ایڈیشن قدرے جلدی بھجوانے ہوتے ہیں کیونکہ تمام شعبوں سے منسلک کارکنوں نے سحری کرنا ہوتی ہے۔ اس روز بھی معمول کے مطابق نوائے وقت ملتان کی لوکل کاپی بھجوا کر ہم گھروں کو روانہ ہو گئے۔ محترم نظامی صاحب کی علالت کی خبر سب کو تھی اور ادھر سے بھی دھڑکا لگا ہوا تھا۔ مجھے یقین کامل تھا کہ نظامی صاحب اﷲ کے خاص بندے ہیں اور اﷲ تعالیٰ انہیں پاس بلانے کے لئے کسی سعد گھڑی کا ہی انتخاب کرے گا۔ وہ شب قدر تھی اور میں نے ایک دو دوستوں سے ذکر بھی کیا کہ میرے حساب سے آج نظامی صاحب کی اوپر حاضری کی رات ہے۔ گھر پہنچ کر سحری کے چند لقمے کھائے تھے کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ دیکھا تو محترم شمیم اصغر رائو کی کال تھی۔ انہوں نے فوراً دفتر پہنچنے کی ہدایت کی۔ میں نے چند متعلقہ ساتھیوں کو فون کیا جن میں سے بعض ابھی گھر کے راستے میں تھے۔ دفتر پہنچے تیزی کے ساتھ کاپی میں ضروری ردوبدل کیا اور اپنے قارئین کو اس عظیم شخص کے دنیا چھوڑ جانے کی خبر دی جو خبروں کی دنیا کا بادشاہ تھا۔ (برسبیل تذکرہ یاد آیا کہ ایک بار مصر کے دورہ کے موقع پر مرحوم ضیاء الحق قاہرہ کے ہوائی اڈے پر اپنے وفد کے ارکان کا صدر حسنی مبارک کے ساتھ تعارف کروا رہے تھے۔ محترم مجید نظامی کے پاس آئے تو کہا کہ ان سے ملیئے یہ ہیں پاکستان میں صحافت کی دنیا کے بادشاہ‘ مگر اگلی شخصیت پر نظر پڑتے ہی تھوڑا سا جھنپے کہ وہ بھی ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹر تھے مگر پھر سنبھل کر کہا اور یہ ہیں صحافت کی دنیا کے ایک اور بادشاہ۔ شکر ہے حسنی مبارک نے یہ نہ پوچھ لیا کہ جناب صدر ایک ملک میں دو بادشاہ کیسے ہو سکتے ہیں)
محترم مجید نظامی سے غائبانہ عقیدت تو بچپن سے تھی۔ اباجی مرحوم و مغفور نے نوائے وقت‘ اردو ڈائجسٹ اور کچھ ہفتہ وار رسائل لگوائے ہوئے تھے۔ نوائے وقت لاہور سے شائع ہوتا اور ڈاک سے ایک دن لیٹ پہنچتا تھا۔ گھریلو ماحول کے باعث ملکی اور عالمی سیاست کے حوالے سے الحمداﷲ اپنے ہم عمر ساتھیوں کی نسبت کہیں زیادہ باخبر تھا۔ ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی الیکشن میں ہم محترمہ جناح کے حامی تھے۔ نوائے وقت کا قاری ان کا مخالف ہو بھی کیسے سکتا تھا۔ اس وقت میں چھٹی یا ساتویں کا طالب علم تھا۔ ہمارے ایک استاد محترم عبدالحق مرحوم و مغفور ایوب خان کے زبردست حامی تھے۔ میری ان سے اس موضوع پر نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔ انہی دنوں مرحوم شورش کاشمیری نے جو نہ جانے کیوں (نظامی صاحب کے بہترین دوست ہوتے ہوئے بھی) ایوب خان کے حامی تھے اپنے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ میں ’’اپوزیشن یا غبار کارواں‘‘ کے عنوان سے ایک زوردار مضمون لکھ مارا۔ محترم عبدالحق نے مجھے وہ مضمون پڑھنے کا مشورہ دیا۔ خیر الیکشن ہوئے جس میں حکومت کا مخصوص ’’جھرلو‘‘ چلا اور ایوب خان کامیاب ہو گئے۔ اب استاد محترم عبدالحق مجھے چھیڑنے لگے کہ دیکھتے ہیں تمہارا نوائے وقت اب اس خبر کو کیسے ہضم کرتا ہے۔ ڈاک تقریباً 11 بجے آتی تھی۔ میں کلاس چھوڑ کر ڈاک خانہ پہنچ گیا۔ اباجی مرحوم و مغفور ہائی سکول ٹیچر اور برانچ پوسٹ ماسٹر بھی تھے۔ محترم عبدالحق مجھ سے بھی پہلے پہنچے اور اخبار کھولے کھڑے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی ان کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ کہنے لگے بھئی مبارک ہو تم بھی جیت گئے تمہارا نوائے وقت بھی جیت گیا۔ نوائے وقت نے سرخی جمائی تھی۔ ’’الیکشن کمشن نے ایوب خان کی کامیابی کا اعلان کر دیا‘‘۔ کہنے لگے کمال کر دیا ساری کہانی ایک سطر میں سمو دی ہے۔ کامیابی پتہ نہیں ہوئی یا نہیں مگر الیکشن کمشن نے اعلان کر دیا۔ ایوب خان نوائے وقت سے اتنا ناراض تھے کہ انتخابی مہم کے دوران ملتان آئے تو اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ میں نوائے وقت کا نمائندہ بھی ہے؟ شیخ ریاض پرویز مرحوم نے جو اس وقت ملتان میں بیورو چیف تھے اپنا تعارف کروایا تو فرمانے لگے ’’آپ بھی کچھ انسانیت سیکھیں‘‘ نوائے وقت نے اس پر سرخی جمائی ’’آپ بھی کچھ انسانیت سیکھیں‘ نوائے وقت کے متعلق صدر کا ارشاد‘‘۔
محترم مجیدنظامی سے پہلی ملاقات 70ء کے عشرے میں ہوئی۔ اس وقت میں گورنمنٹ کالج (اب ایمرسن کالج) ملتان میں زیرتعلیم تھا۔ ان کے پی اے نے کہا کہ چٹ بنا دیں جس پر نام‘ شہر اور ملاقات کا مقصد لکھ دیں۔ میں نے مقصد لکھا ’’شوق ملاقات‘‘ فوراً بلوا لیا۔ بڑی شفقت سے پیش آئے۔ مزیدار بسکٹ کھلائے اور چائے پلوائی۔ میں حیران رہ گیا میرا گمان تھا کہ وہ اتنی بڑی شخصیت ہیں پتہ نہیں ملتے بھی ہیں یا نہیں مگر وہ تو سراپا محبت اور شفقت تھے۔ پوچھا کس پارٹی سے آپ کا تعلق ہے میں نے کہا جو نوائے وقت کی پارٹی ہے وہی میری پارٹی ہے۔ ان کا مشفقانہ رویہ دیکھ کر مجھے حوصلہ ہوا اور میں قدرے بے تکلف ہو گیا۔ انہوں نے پوچھا آج بھٹو صاحب نے بیان دیا ہے آپ نے پڑھا؟ پھر اخبار منگوا کر مجھے دکھایا۔ سرخی تھی ’’لاہور کا ایک اخبار سندھ کے معاملات کا چودھری بنا ہوا ہے‘‘۔ انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے ایک رپورٹ دی اور کہا کہ آپ یہ پڑھیں اور دیکھیں سندھ میں کیا ہو رہا ہے ہم نے بہت ہی احتیاط سے خبریں لگائیں پھر بھی بھٹو صاحب ناراض ہیں۔
دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب 1984ء میں نوائے وقت میں ملازمت کے سلسلے میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ قبل ازیں میں نوائے وقت میں مضامین وغیرہ بھیجتا رہتا تھا اور محترم نظامی صاحب کبھی 50روپے اور کبھی 100 روپے معاوضہ بھی بھجوا دیتے تھے۔ میری درخواست پر کہ میں باقاعدہ نوائے وقت میں ملازمت کرنا چاہتا ہوں انہوں نے فوراً منظوری دیتے ہوئے دراز سے ایک فارم نکال کر دیا کہ اسے پر کر دیں۔ پھر فرمایا آپ کب تک آسکتے ہیں۔ میں نے کہا دس پندرہ دن لگ جائیں گے۔ اس روز اکتوبر کی 15تاریخ تھی کہنے لگے آپ یکم نومبر کو ملتان چلے جائیں آپ کا لیٹر میں بھجوا دوں گا۔ میں یکم نومبر 1984ء کو ملتان حسن پروانہ آفس میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر شیخ ریاض پرویز سے ملا۔
عاشق علی فرخ جو اس وقت نیوز ایڈیٹر تھے بھی وہاں موجود تھے۔ کہنے لگے آپ 2 بجے آ جائیں آپ سے ٹیسٹ لے لیں گے۔ شیخ ریاض پرویز نے فوراً کہا He Has Been Appointed By Nizami Sahib تو عاشق علی فرخ صاحب نے کہا ’’تے فیر وی 2 بجے آئو تے کم تے بیٹھو‘‘۔ وہ زندگی کے خوبصورت ترین دن تھے۔ مجھے اپنی ملازمت سے بہت محبت تھی۔ جو وقت گھر میں گزرتا وہ ایک خوشگوار انتظار کی کیفیت ہوتی تھی۔ لکھنے لکھانے کا بھی شوق تھا۔ ایک روز مضمون لکھا اور محترم نظامی صاحب کو بھجوادیا۔ (جاری)

مزیدخبریں